Naqqash Abidi

نقاش عابدی

نقاش عابدی کی غزل

    حق جو مانگا تو مرے ہاتھ میں کشکول دیا

    حق جو مانگا تو مرے ہاتھ میں کشکول دیا آج اس نے مرے احساس کا در کھول دیا میرے ہونٹوں کو سخاوت کے قصیدے دے کر ہر گلی جا کے بجانے کو مجھے ڈھول دیا چن کے ہر ایک وفا اور مروت میری مجھ کو تحقیر کی میزان میں کیوں تول دیا میرے لقمے پہ نظر ایسے پڑی تھی اس کی زہر سا اک مرے احساس میں بس گھول ...

    مزید پڑھیے

    ہاتھ خالی سر بازار لیے پھرتی ہے

    ہاتھ خالی سر بازار لیے پھرتی ہے روح میں سینکڑوں آزار لیے پھرتی ہے بے خبر ہے کہ نہیں ہاتھ میں پھوٹی کوڑی ماں جسے گود میں بیمار لیے پھرتی ہے ایک دوشیزہ نمائش کا سہارا لے کر کتنے بے شکل خریدار لیے پھرتی ہے نوچ کر اپنی حیا اوڑھ کے چہرے پہ فریب ایک گمراہ سا کردار لیے پھرتی ہے حسرت ...

    مزید پڑھیے

    آؤ جو ٹوٹے ہوئے خواب ہیں تقسیم کریں

    آؤ جو ٹوٹے ہوئے خواب ہیں تقسیم کریں جس کی قسمت میں جو گرداب ہیں تقسیم کریں تم مرے نام پہ جی لینا میں تم پر مر کر جینے مرنے کے جو آداب ہیں تقسیم کریں خشک آنکھوں میں جو مرجھا گئے ان کی کلیاں آس کے پھول جو شاداب ہیں تقسیم کریں وہ نگاہیں بھی جو نمناک تھیں وقت رخصت منتظر اور جو بے آب ...

    مزید پڑھیے

    ہم سفر یاد ہیں اس کے جو سفر ختم ہوا

    ہم سفر یاد ہیں اس کے جو سفر ختم ہوا جانے کب کون سی سازش ہو یہ ڈر ختم ہوا بے سبب سب کو ہی سبقت کے جنوں نے مارا ایسے بکھرے ہیں کہ رشتوں کا اثر ختم ہوا اعتبار اٹھتے ہی یہ کیسا تغیر آیا دل کا ویران مکاں رہ گیا گھر ختم ہوا شاخ ہی شاخ کی دشمن تھی ثمر کیا دیتا پھولنے پھلنے سے پہلے ہی شجر ...

    مزید پڑھیے

    روح میری الگ ہے جان الگ

    روح میری الگ ہے جان الگ ذات کا ناتواں مکان الگ ہر طرف پھیلتی ہوئی کرنیں اک اندھیرے کا خاندان الگ ایک ذرہ ہوں اور کچھ بھی نہیں ہوں بہت کچھ ہے یہ گمان الگ قید ہیں آنکھ میں کئی سپنے اور ہے فکر کی اڑان الگ اک طرف شور خانۂ دل میں عقل رہتی ہے بے زبان الگ کر رہا ہے نصیب کی باتیں اور ...

    مزید پڑھیے

    تیر جب اپنی کمانوں سے نکل جاتے ہیں

    تیر جب اپنی کمانوں سے نکل جاتے ہیں کچھ پرندے بھی اڑانوں سے نکل جاتے ہیں جانے کس راہ پہ کچھ بھوک سے سہمے بچے رات کو اپنے مکانوں سے نکل جاتے ہیں ظرف کی بات نہ کر پھوٹ پڑیں تو لاوے خود پہاڑوں کے دہانوں سے نکل جاتے ہیں ہم بھی کیا لوگ ہیں اک گھر کو بنانے کے لیے کس قدر دور گھرانوں سے ...

    مزید پڑھیے

    تم نے اب سیکھ لیا مجھ کو ستائے رکھنا

    تم نے اب سیکھ لیا مجھ کو ستائے رکھنا ایک محشر سا مرے دل میں اٹھائے رکھنا ایسا کرنا کہ مرے نام کو دل پر لکھ کر پردۂ ذہن کو توقیر دلائے رکھنا میں بھی رکھوں گا تمہیں سوچ کے شانوں پہ سوار تم بھی سینے سے مری آس لگائے رکھنا پھر اترنا ہے مجھے خواب کی گہرائی میں تم نگاہوں میں کوئی راہ ...

    مزید پڑھیے

    تمہارا نام زباں سے نکل گیا آخر

    تمہارا نام زباں سے نکل گیا آخر زمانہ میرے گماں سے نکل گیا آخر سنبھال کر جسے رکھا ہوا تھا مدت سے وہ تیر تیری کماں سے نکل گیا آخر تمام اپنے سوال و جواب بھول گئے حساب سود و زیاں سے نکل گیا آخر ہر ایک شخص میں تجھ کو تلاش کرتا ہوا ہجوم نکتہ وراں سے نکل گیا آخر جو لازمی تھا ترے سامنے ...

    مزید پڑھیے

    یاد رکھنا ایک دن تیری زباں تک آؤں گا

    یاد رکھنا ایک دن تیری زباں تک آؤں گا خامشی کی قید سے حرف بیاں تک آؤں گا تو یقیں کے آئنہ میں دیکھنا چاہے گا اور میں فقط خوش فہمیٔ حد گماں تک آؤں گا چھو کے تیرے ذہن کے خاموش تاروں کو کبھی لے کے اک طوفاں ترے دل کے مکاں تک آؤں گا پھر ترے احساس کے شعلوں میں ڈھل جائے گی رات میں ابھر کر ...

    مزید پڑھیے

    رہنماؤں کی بات کرتے ہو

    رہنماؤں کی بات کرتے ہو پارساؤں کی بات کرتے ہو جو اڑا لیں سروں سے آنچل بھی ان ہواؤں کی بات کرتے ہو جل رہی ہے زمیں کی کوکھ مگر تم خلاؤں کی بات کرتے ہو مجھ کو محنت کا بھی صلہ نہ ملا تم دعاؤں کی بات کرتے ہو پہلے انساں کو زہر دیتے ہو پھر دواؤں کی بات کرتے ہو میری بستی میں بھوک پلتی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2