Najmus Saqib

نجم الثاقب

  • 1960

نجم الثاقب کی غزل

    وہی محترم رہے شہر میں جو تفاوتوں میں لگے رہے

    وہی محترم رہے شہر میں جو تفاوتوں میں لگے رہے جنہیں پاس عزت حرف تھا وہ ریاضتوں میں لگے رہے انہیں تم درازیٔ عمر کی نہیں، حوصلے کی دعائیں دو وہ جو ایک نسبت بے اماں کی حفاظتوں میں لگے رہے مرے ہاتھ میں ترے نام کی وہ لکیر مٹتی چلی گئی مرے چارہ گر مرے درد کی ہی وضاحتوں میں لگے ...

    مزید پڑھیے

    اچھا سا اختتام بھی تم سے نہ ہو سکا

    اچھا سا اختتام بھی تم سے نہ ہو سکا اس مرتبہ سلام بھی تم سے نہ ہو سکا سلجھیں نہ گتھیاں کبھی باہر کے خوف کی اندر کا احترام بھی تم سے نہ ہو سکا بچوں نے آگ اوڑھ لی چیخوں کے شور میں ایسے میں کچھ کلام بھی تم سے نہ ہو سکا خرچہ نہ گھر کا چل سکا حرفوں کو بیچ کر لہجہ بدل کے نام بھی تم سے نہ ...

    مزید پڑھیے

    بدن کو جاں سے جدا ہو کے زندہ رہنا ہے

    بدن کو جاں سے جدا ہو کے زندہ رہنا ہے یہ فیصلہ ہے فنا ہو کے زندہ رہنا ہے یہی نہیں کہ مرے گرد کھینچنی ہیں حدیں مرے خدا نے خدا ہو کے زندہ رہنا ہے ہزاروں لوگ تھے طوق انا سجائے ہوئے فقط مجھے ہی رہا ہو کے زندہ رہنا ہے مجھے تو خیر شب ہجر مار ڈالے گی تمہیں تو مجھ سے جدا ہو کے زندہ رہنا ...

    مزید پڑھیے

    تیری سمت جانے کے راستوں میں زندہ ہوں

    تیری سمت جانے کے راستوں میں زندہ ہوں پھول ہو چکا ہوں اور خوشبوؤں میں زندہ ہوں کون ہے جو ہر لمحہ صورتیں بدلتا ہے میں کسے سمجھنے کے مرحلوں میں زندہ ہوں بند سیپیوں میں ہوں منتظر ہوں بارش کا میں تمہاری آنکھوں کے پانیوں میں زندہ ہوں تو فراق کی ساعت ناتمام قربت میں میں وصال کا لمحہ ...

    مزید پڑھیے

    ہنوز رات ہے جلنا پڑے گا اس کو بھی

    ہنوز رات ہے جلنا پڑے گا اس کو بھی کہ میرے ساتھ پگھلنا پڑے گا اس کو بھی درست ہے کہ وہ مجھ سے گریز پا ہے مگر گروں گا میں تو سنبھلنا پڑے گا اس کو بھی اٹوٹ دوستی نسبت تعلقات وفا یہ کیسی آگ میں جلنا پڑے گا اس کو بھی کسی بھی طرح سے اس پیار کو نبھانا ہے اب اپنا آپ بدلنا پڑے گا اس کو ...

    مزید پڑھیے

    کسی خموشی کا زہر جب اک مکالمے کی طرح سے چپ تھا

    کسی خموشی کا زہر جب اک مکالمے کی طرح سے چپ تھا یہ واقعہ ہے کہ شہر قاتل بجھے دیئے کی طرح سے چپ تھا سحر کے آثار جب نمایاں ہوئے تو بینائی چھن چکی تھی قبولیت کا وہ ایک لمحہ مجسمے کی طرح سے چپ تھا کسی تعلق کے ٹوٹنے کا عذاب دونوں کے دل پر اترا میں عکس بن کے ٹھہر گیا تھا وہ آئینے کی طرح ...

    مزید پڑھیے

    جھیل میں بہتے پھول کنول کے جھوٹے تھے

    جھیل میں بہتے پھول کنول کے جھوٹے تھے خواب جو ہم نے مل کر دیکھے جھوٹے تھے میں ہی ٹوٹ کے بکھرا اور نہ رویا وہ اب کے ہجر کے موسم کتنے جھوٹے تھے جن کی خاطر تم نے مجھ کو چھوڑ دیا فرض کرو کہ وہ اندیشے جھوٹے تھے ویراں گھر کی تاریکی میں تنہا خواب اتنے سچے کب تھے جتنے جھوٹے تھے دل کو آج ...

    مزید پڑھیے

    یقیں کے بعد یہ دیکھا کہ پھر گماں ٹوٹے

    یقیں کے بعد یہ دیکھا کہ پھر گماں ٹوٹے وہ آندھیاں تھیں کہ سارے ہی سائباں ٹوٹے فصیل شہر کی ڈالیں جنہوں نے بنیادیں وہ ہاتھ دستکیں دیتے ہوئے یہاں ٹوٹے پھر ایک بار لڑائی تھی اپنی سورج سے ہم آئینوں کی طرح پھر یہاں وہاں ٹوٹے ہمارے موسم دل کو نظر یہ کس کی لگی یہ کن ہواؤں میں رشتوں کے ...

    مزید پڑھیے

    کوئی ہے جو غم نہیں جھیلتا کسے ہر نفس میں سکون ہے

    کوئی ہے جو غم نہیں جھیلتا کسے ہر نفس میں سکون ہے ترے چارہ گر کو خبر نہیں ترے اپنے بس میں سکون ہے کسی مصلحت کے غبار میں کہاں راستہ نظر آئے گا اسے جا کے دیکھیے دوستو جسے پیش و پس میں سکون ہے مرے راستے بڑے نرم خو وہ شمال ہو کہ جنوب ہو مرے قلزم غم جاوداں ترے نیلے رس میں سکون ہے اسے بے ...

    مزید پڑھیے

    سوچوں سے ان خوابوں کی زنجیریں کب اتریں گی

    سوچوں سے ان خوابوں کی زنجیریں کب اتریں گی رستہ دیکھتی آنکھوں پر تعبیریں کب اتریں گی اپنے پیاروں کے جانے کا ماتم کب تک ہوگا دیواروں سے یہ پچھلی تصویریں کب اتریں گی ٹوٹی کڑیاں جوڑنے والے آخر کب آئیں گے گرہیں کھولنے والی وہ تحریریں کب اتریں گی تجھ بن خالی رہ کر کتنے سال بتانے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2