دیدۂ بینا ہے تو ہوگی ہی جلوہ آشنا
دیدۂ بینا ہے تو ہوگی ہی جلوہ آشنا قطرہ دریا آشنا تو صحرا ذرہ آشنا یوں تو کہنے کو سبھی ہیں ایک دنیا آشنا دل ہی جانے ہے یہاں اب کون کس کا آشنا عطر کتنے استعاروں نے کیا ان سے کشید شاخ پر ہیں جھومتے یہ پھول شعلہ آشنا اکتفا نان جویں پر اب کیا جاتا نہیں لذت کام و دہن ہے من و سلویٰ ...