زندگی تو نے کبھی خود کو سنوارا بھی نہیں
زندگی تو نے کبھی خود کو سنوارا بھی نہیں
جھلملاتا ترے ماتھے پہ ستارا بھی نہیں
سر ٹکایا ہی تھا دیوار پہ آنکھیں چھلکیں
آج وہ وقت ہے تنکے کا سہارا بھی نہیں
گاؤں کے کچے مکاں بوڑھے شجر یاد آئے
شہر بے درد میں اب میرا گزارا بھی نہیں
لفظ نے آہیں بھریں اور قلم بھی رویا
درد کاغذ پہ ابھی ہم نے اتارا بھی نہیں
وہ چمکتی ہے اندھیروں میں ستاروں کی طرح
ڈھنگ سے جس نے کبھی خود کو سنوارا بھی نہیں