Nafas Ambalvi

نفس انبالوی

نفس انبالوی کی غزل

    یوں تو خود اپنے ہی سائے سے بھی ڈر جاتے ہیں لوگ

    یوں تو خود اپنے ہی سائے سے بھی ڈر جاتے ہیں لوگ حادثے کیسے بھی ہوں لیکن گزر جاتے ہیں لوگ جب مجھے دشواریوں سے رو بہ رو ہونا پڑا تب میں سمجھا ریزہ ریزہ کیوں بکھر جاتے ہیں لوگ صرف غازہ ہی نہیں چہروں کی رعنائی کا راز شدت غم کی تپش سے بھی نکھر جاتے ہیں لوگ مسئلے آ کر لپٹ جاتے ہیں بچوں ...

    مزید پڑھیے

    دھوپ تھی صحرا تھا لیکن جسم کا سایہ نہ تھا

    دھوپ تھی صحرا تھا لیکن جسم کا سایہ نہ تھا آدمی اس سے زیادہ تو کبھی تنہا نہ تھا کھینچتے تھے اپنی جانب ریگزاروں کے سراب دور تک صحرا میں لیکن آب کا قطرہ نہ تھا ایک مبہم خواب تھا آنکھوں میں اور دل میں جنوں ذہن میں لیکن عمارت کا کوئی نقشہ نہ تھا بھیڑ تھی بستی میں لیکن میں کسے ...

    مزید پڑھیے

    اب کسی کو کیا بتائیں کس قدر نادان تھے

    اب کسی کو کیا بتائیں کس قدر نادان تھے ہم وہیں کشتی کو لے آئے جہاں طوفان تھے کچھ تڑپتی آرزوئیں چند بے معنی سوال کارواں میں سب کے سر پر بس یہی سامان تھے ہم نے اس دنیا کے مے خانہ میں یے دیکھا فریب بس وہی پیاسے رہے جو صاحب ایمان تھے زلزلوں پر آ گیا الزام اچھا ہی ہوا ورنہ اس تخریب کے ...

    مزید پڑھیے

    سر برہنہ بھری برسات میں گھر سے نکلے

    سر برہنہ بھری برسات میں گھر سے نکلے ہم بھی کس گردش حالات میں گھر سے نکلے دن میں کس کس کو بتائیں گے مسافت کا سبب بس یہی سوچ کے ہم رات میں گھر سے نکلے سر پہ خود اپنی صلیبوں کو اٹھائے ہم لوگ روح کا بوجھ لئے ذات میں گھر سے نکلے کب برس جائیں ان آنکھوں کا بھروسہ ہی نہیں کون بے وقت کی ...

    مزید پڑھیے

    مذہبی چنگاریوں سے بستیاں جل جائیں گی

    مذہبی چنگاریوں سے بستیاں جل جائیں گی ان چراغوں سے نہ الجھو انگلیاں جل جائیں گی آگ گلشن میں لگا دی اور سوچا بھی نہیں ان گلوں کے ساتھ کتنی تتلیاں جل جائیں گی نفرتوں کی آندھیاں یوں ہی اگر چلتی رہی راکھ میں پنہاں ہیں جو چنگاریاں جل جائیں گی آسمانوں کو جلا کر ایک دن پچھتاؤ گے جل ...

    مزید پڑھیے

    بے لوث محبت کا صلہ ڈھونڈھ رہا ہوں

    بے لوث محبت کا صلہ ڈھونڈھ رہا ہوں ناداں ہوں یہ اس شہر میں کیا ڈھونڈھ رہا ہوں اک موڑ پہ ٹوٹے ہوئے کھنڈر سے مکاں میں گزرے ہوئے لمحوں کا پتا ڈھونڈھ رہا ہوں مدت سے یہ خنجر مرے سینے میں ہے اور میں رستے ہوئے زخموں کی دوا ڈھونڈھ رہا ہوں دیوانہ جسے سنگ تراشی کا جنوں ہے کہتا ہے کہ پتھر ...

    مزید پڑھیے

    ہم آج اپنا مقدر بدل کے دیکھتے ہیں

    ہم آج اپنا مقدر بدل کے دیکھتے ہیں تمہارے ساتھ بھی کچھ دور چل کے دیکھتے ہیں ادھر چراغ بجھانے کو ہے ہوا بیتاب ادھر یے ضد کہ ہواؤں میں جل کے دیکھتے ہیں چلو پھر آج زمینوں میں جذب ہو جائیں چھلک کے آنکھ سے باہر نکل کے دیکھتے ہیں یے عشق کوئی بلا ہے جنون ہے کیا ہے یہ کیسی آگ ہے پتھر ...

    مزید پڑھیے

    نہ جانے کب کی دبی تلخیاں نکل آئیں

    نہ جانے کب کی دبی تلخیاں نکل آئیں ذرا سی بات تھی اور برچھیاں نکل آئیں ہوا یے ہم پہ اندھیروں کی سازشوں کا اثر ہمارے ذہن میں بھی کھڑکیاں نکل آئیں مجھے نواز دی مولیٰ نے پھول سی بیٹی مرے حساب میں کچھ نیکیاں نکل آئیں وہ پیڑ جس پہ قضا بن کے بجلیاں ٹوٹیں سنا ہے اوس پہ ہری پتیاں نکل ...

    مزید پڑھیے

    گھر کسی کا بھی ہو جلتا نہیں دیکھا جاتا

    گھر کسی کا بھی ہو جلتا نہیں دیکھا جاتا ہم سے چپ رہ کے تماشہ نہیں دیکھا جاتا تیری عظمت ہے تو چاہے تو سمندر دے دے مانگنے والے کا کاسہ نہیں دیکھا جاتا جب سے صحرا کا سفر کاٹ کے گھر لوٹا ہوں تب سے کوئی بھی ہو پیاسا نہیں دیکھا جاتا یہ عبادت ہے عبادت میں سیاست کیسی اس میں کعبہ یا کلیسا ...

    مزید پڑھیے

    ملتے ہیں مسکرا کے اگرچہ تمام لوگ

    ملتے ہیں مسکرا کے اگرچہ تمام لوگ مر مر کے جی رہے ہیں مگر صبح و شام لوگ یہ بھوک یہ ہوس یہ تنزل یہ وحشتیں تعمیر کر رہے ہیں یہ کیسا نظام لوگ بربادیوں نے مجھ کو بہت سرخ رو کیا کرنے لگے ہیں اب تو مرا احترام لوگ انکار کر رہا ہوں تو قیمت بلند ہے بکنے پہ آ گیا تو گرا دیں گے دام لوگ اس ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3