Nafas Ambalvi

نفس انبالوی

نفس انبالوی کی غزل

    صحرا میں جو ملا تھا مجھے اتنا یاد ہے

    صحرا میں جو ملا تھا مجھے اتنا یاد ہے میرا ہی نقش پا تھا مجھے اتنا یاد ہے اتنا لہو لہو تو نہیں تھا بدن مرا ہاں زخم اک ہرا تھا مجھے اتنا یاد ہے پھر کیا ہوا کبھی مری بربادیوں سے پوچھ تیری طرف چلا تھا مجھے اتنا یاد ہے وو بھیڑ میں کھڑا ہے جو پتھر لیے ہوئے کل تک مرا خدا تھا مجھے اتنا ...

    مزید پڑھیے

    ہم پہ وہ مہربان کچھ کم ہے

    ہم پہ وہ مہربان کچھ کم ہے اس لیے خوش بیان کچھ کم ہے مٹ گیا ہوں پر اس کی نظروں میں اب بھی یہ امتحان کچھ کم ہے شہر میں یوں زمیں تو کافی ہے نیلگوں آسمان کچھ کم ہے غم کے سامان کچھ زیادہ ہیں اس مطابق مکان کچھ کم ہے سر چھپاؤں تو پاؤں جلتے ہیں مجھ پہ یہ سائبان کچھ کم ہے زندگی اور دے ...

    مزید پڑھیے

    اک شعلۂ حسرت ہوں مٹا کیوں نہیں دیتے

    اک شعلۂ حسرت ہوں مٹا کیوں نہیں دیتے مجھ کو مرے جینے کہ سزا کیوں نہیں دیتے میں جن کے لئے روز صلیبوں پہ چڑھا ہوں وہ میری وفاؤں کا صلہ کیوں نہیں دیتے کیوں درد کی شدت کو بڑھاتے ہو طبیبو اس درد مسلسل کی دوا کیوں نہیں دیتے سنتا ہوں کہ ہر موڑ پہ رہبر ہیں مگر وہ مجھ کو میری منزل کا پتہ ...

    مزید پڑھیے

    کون سی شاخ کا پتہ تھا ہرا بھول گیا

    کون سی شاخ کا پتہ تھا ہرا بھول گیا پیڑ سے ٹوٹ کے میں اپنا پتہ بھول گیا میں کوئی وعدہ فراموش نہیں ہوں پھر بھی مجھ پہ الزام ہے میں اپنا کہا بھول گیا اپنے بچوں کے کھلونے تو اسے یاد رہے گھر میں بیمار پڑی ماں کی دوا بھول گیا کر تو دیں میں نے چراغوں کی قطاریں روشن ہے زمانے کی مگر تیز ...

    مزید پڑھیے

    جو دشت میں ملا تھا مجھے اتنا یاد ہے

    جو دشت میں ملا تھا مجھے اتنا یاد ہے میرا ہی نقش پا تھا مجھے اتنا یاد ہے پھر کیا ہوا کبھی مری بربادیوں سے پوچھ تیری طرف چلا تھا مجھے اتنا یاد ہے اتنا لہو لہو تو نہیں تھا بدن مرا ہاں زخم اک ہرا تھا مجھے اتنا یاد ہے وہ بھیڑ میں کھڑا ہے جو پتھر لئے ہوئے کل تک مرا خدا تھا مجھے اتنا ...

    مزید پڑھیے

    اتنی مشکل میں کبھی پہلے تو جاں آئی نہ تھی

    اتنی مشکل میں کبھی پہلے تو جاں آئی نہ تھی اے محبت جب مری تجھ سے شناسائی نہ تھی زندگی میں سینکڑوں غم تھے ترے غم کے سوا دل میں ویرانے تو تھے پر اتنی تنہائی نہ تھی رہ گزر تھی حادثے تھے فاصلہ تھا دھوپ تھی برہنہ پائی تھی لیکن آبلہ پائی نہ تھی بچ کے طوفاں سے کسی صورت نکل آئے مگر ہم ...

    مزید پڑھیے

    عمر بھر درد کے رشتوں کو نبھانے سے رہا

    عمر بھر درد کے رشتوں کو نبھانے سے رہا زندگی میں تو ترے ناز اٹھانے سے رہا جب بھی دیکھا تو کناروں پہ تڑپتا دیکھا یہ سمندر تو مری پیاس بجھانے سے رہا بس یہی سوچ کے سر اپنا قلم کر ڈالا اب وہ الزام مرے سر تو لگانے سے رہا اس زمانہ میں جہالت سے گزر ہوتی ہے اب ہنر سے تو کوئی گھر کو چلانے ...

    مزید پڑھیے

    اگر چراغ بھی آندھی سے ڈر گئے ہوتے

    اگر چراغ بھی آندھی سے ڈر گئے ہوتے تو سوچیے کہ اجالے کدھر گئے ہوتے یہ میرے دوست مرے چارہ گر مرے احباب نہ چھیڑتے تو مرے زخم بھر گئے ہوتے کوئی نگاہ جو اپنی بھی منتظر ہوتی تو ہم بھی شام ڈھلے اپنے گھر گئے ہوتے اگر وہ میری عیادت کو آ گیا ہوتا تو دوستوں کے بھی چہرے اتر گئے ہوتے ہمیں ...

    مزید پڑھیے

    وہ میرا دوست ہے اور مجھ سے واسطہ بھی نہیں

    وہ میرا دوست ہے اور مجھ سے واسطہ بھی نہیں جو قربتیں بھی نہیں ہیں تو فاصلا بھی نہیں کسے خبر تھی کہ اس دشت سے گزرنا ہے جہاں سے لوٹ کے آنے کا راستہ بھی نہیں کبھی جو پھوٹ کے رو لے تو چین پا جائے مگر یہ دل مرے پیروں کا آبلہ بھی نہیں سنا ہے وہ بھی مرے قتل میں ملوث ہے وہ بے وفا ہے مگر ...

    مزید پڑھیے

    جنوں ہے ذہن میں تو حوصلے تلاش کرو

    جنوں ہے ذہن میں تو حوصلے تلاش کرو مثال آب رواں راستے تلاش کرو یہ اضطراب رگوں میں بہت ضروری ہے اٹھو سفر کے نئے سلسلے تلاش کرو یہ سر زمین سفر کے لئے بہت کم ہے چلو افق پہ نئے مرحلے تلاش کرو جو تھک گئے ہو یہ بوسیدہ زندگی جی کر تو زندگی کے الگ زاویے تلاش کرو جو چاہتے ہو کہ اخبار چل ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3