Nafas Ambalvi

نفس انبالوی

نفس انبالوی کے تمام مواد

21 غزل (Ghazal)

    صحرا میں جو ملا تھا مجھے اتنا یاد ہے

    صحرا میں جو ملا تھا مجھے اتنا یاد ہے میرا ہی نقش پا تھا مجھے اتنا یاد ہے اتنا لہو لہو تو نہیں تھا بدن مرا ہاں زخم اک ہرا تھا مجھے اتنا یاد ہے پھر کیا ہوا کبھی مری بربادیوں سے پوچھ تیری طرف چلا تھا مجھے اتنا یاد ہے وو بھیڑ میں کھڑا ہے جو پتھر لیے ہوئے کل تک مرا خدا تھا مجھے اتنا ...

    مزید پڑھیے

    ہم پہ وہ مہربان کچھ کم ہے

    ہم پہ وہ مہربان کچھ کم ہے اس لیے خوش بیان کچھ کم ہے مٹ گیا ہوں پر اس کی نظروں میں اب بھی یہ امتحان کچھ کم ہے شہر میں یوں زمیں تو کافی ہے نیلگوں آسمان کچھ کم ہے غم کے سامان کچھ زیادہ ہیں اس مطابق مکان کچھ کم ہے سر چھپاؤں تو پاؤں جلتے ہیں مجھ پہ یہ سائبان کچھ کم ہے زندگی اور دے ...

    مزید پڑھیے

    اک شعلۂ حسرت ہوں مٹا کیوں نہیں دیتے

    اک شعلۂ حسرت ہوں مٹا کیوں نہیں دیتے مجھ کو مرے جینے کہ سزا کیوں نہیں دیتے میں جن کے لئے روز صلیبوں پہ چڑھا ہوں وہ میری وفاؤں کا صلہ کیوں نہیں دیتے کیوں درد کی شدت کو بڑھاتے ہو طبیبو اس درد مسلسل کی دوا کیوں نہیں دیتے سنتا ہوں کہ ہر موڑ پہ رہبر ہیں مگر وہ مجھ کو میری منزل کا پتہ ...

    مزید پڑھیے

    کون سی شاخ کا پتہ تھا ہرا بھول گیا

    کون سی شاخ کا پتہ تھا ہرا بھول گیا پیڑ سے ٹوٹ کے میں اپنا پتہ بھول گیا میں کوئی وعدہ فراموش نہیں ہوں پھر بھی مجھ پہ الزام ہے میں اپنا کہا بھول گیا اپنے بچوں کے کھلونے تو اسے یاد رہے گھر میں بیمار پڑی ماں کی دوا بھول گیا کر تو دیں میں نے چراغوں کی قطاریں روشن ہے زمانے کی مگر تیز ...

    مزید پڑھیے

    جو دشت میں ملا تھا مجھے اتنا یاد ہے

    جو دشت میں ملا تھا مجھے اتنا یاد ہے میرا ہی نقش پا تھا مجھے اتنا یاد ہے پھر کیا ہوا کبھی مری بربادیوں سے پوچھ تیری طرف چلا تھا مجھے اتنا یاد ہے اتنا لہو لہو تو نہیں تھا بدن مرا ہاں زخم اک ہرا تھا مجھے اتنا یاد ہے وہ بھیڑ میں کھڑا ہے جو پتھر لئے ہوئے کل تک مرا خدا تھا مجھے اتنا ...

    مزید پڑھیے

تمام