محبت جیت سکتی تھی
کسی کے فرض کرنے سے اگر فطرت بدل سکتی تو پھر شاید محبت جیت سکتی تھی
کسی کے فرض کرنے سے اگر فطرت بدل سکتی تو پھر شاید محبت جیت سکتی تھی
جن بچوں کو اپنا سارا جیون دے کر پالا پوسا وہ بچے جب دور گئے ہوں ان کی راہ تکتی رہتی ہے ان کی یاد میں کھو جاتی ہے چپکے چپکے روتی ہے روتے روتے سو جاتی ہے ماں جب بوڑھی ہو جاتی ہے
ایک عجیب خواہش ہے اس زمیں کے کونے میں صرف مہ جبینوں کی سب کی سب حسینوں کی اپنی ایک بستی ہو زندگی جہاں ہر پل کھلکھلا کے ہنستی ہو رنگ و نور کی بارش ہر گھڑی برستی ہو سب غزال نینوں میں شوخ سی شرارت ہو ان کی جنبش لب سے زندگی عبارت ہو خوشیوں کا جھمیلا ہو پلکوں پہ ستارے ہوں روشنی کا ریلا ...
یہ ہماری قسمت کے جتنے بھی ستارے ہیں قدرت الٰہی نے بے مراد رستوں پر باندھ کر اتارے ہیں جن کی اپنی منزل ہی بے نشان رستے ہوں روشنی جو غیروں سے مستعار لیتے ہوں کیسے میں یقیں کر لوں میری منزلوں کے وہ معتبر اشارے ہیں یہ ہماری قسمت کے جتنے بھی ستارے ہیں صرف استعارے ہیں
حسن منظر میں کہاں ہے یہ ہمارے من کی آنکھوں میں کہیں ہے من کی آنکھیں کھل سکیں جو تو ہر اک منظر حسیں ہے حسن منظر میں نہیں ہے
تمہیں ہے فخر کہ تم ہو مری شریک حیات مجھے یہ دکھ ہے کہ تم میری ہم سفر ٹھہری میں کم نصیب جو قسمت سے اپنی لڑ نہ سکا ترے سفر کو بہت تابناک کر نہ سکا تمہاری خواہشوں کے خواب ناک دامن کو نئے زمانے کی رنگینیوں سے بھر نہ سکا مگر میں آج بھی یہ اعتراف کرتا ہوں تمہی تھی میری محبت تمہی ہو جان ...
تیرے نوخیز آویزے یہ دل آویز آویزے ذرا سا تم جو رکتی ہو پلٹ کر مسکراتی ہو تیرے گالوں کو چھوتے ہیں شرارت خیز آویزے تجھے پانے کی خواہش کو کریں مہمیز آویزے ستم انگیز آویزے یہ دل آویز آویزے
اپنی آنکھیں ذرا مجھے دینا میں دکھاؤں تری نظر سے تجھے پھر بتانا قصور کس کا ہے
اگر تم فرض کر لو تم میرے کار نشاط و وصل کا یکتا ذریعہ ہو تمہارے حسن کی پر پیچ گلیوں کا میں اک تنہا مسافر ہوں ہمیں ہر روز مشق وصل کے ہیجان سے ہو کر نئی منزل کو پانا ہے نئی مستی کا اک سیلاب لانا ہے اور اس سیلاب میں سارے جہاں کو ڈوب جانا ہے میں واقف ہوں کہ یہ ممکن نہیں لیکن اگر تم فرض کر ...
اس کا چہرہ اس کی آنکھیں اس کے ہونٹوں کی جنبش جیسے چاند جیسے جھیل جیسے بارش کی آواز