Nadeem Sirsivi

ندیم سرسوی

ندیم سرسوی کی غزل

    ایک ہم ہی نہیں تقدیر کے مارے صاحب

    ایک ہم ہی نہیں تقدیر کے مارے صاحب لوگ ہیں بخت زدہ سارے کے سارے صاحب میرا نیزے پہ سجا سر ہے پیام غیرت کوئی نیزے سے مرا سر نہ اتارے صاحب میں بھی بچپن میں خلاؤں کا سفر کرتا تھا کھیلا کرتے تھے مرے ساتھ ستارے صاحب دفعتاً ہم نے صلہ پایا مناجاتوں کا دفعتاً سامنے آئے وہ ہمارے ...

    مزید پڑھیے

    ریاضتوں کی تپش میں رہ کر پگھل رہا ہوں

    ریاضتوں کی تپش میں رہ کر پگھل رہا ہوں یہ بات سچ ہے میں دھیرے دھیرے بدل رہا ہوں علامت خاک زادگی ہو مزید روشن بس اس لئے خاک اپنے چہرے پہ مل رہا ہوں اتار کر قرض زندگانی کا رفتہ رفتہ نفس کے وحشت کدے سے باہر نکل رہا ہوں انا پرستوں کے بیچ اپنی انا کے سر کو ہوں منکسر اس لئے مسلسل کچل ...

    مزید پڑھیے

    اک زمیں دوز آسماں ہوں میں

    اک زمیں دوز آسماں ہوں میں ہاں مری جان بے نشاں ہوں میں مجھ کو توحید ہو چکی ازبر لا مکاں کا نیا مکاں ہوں میں دست قدرت کی شاہکاری کا خود میں آباد اک جہاں ہوں میں کب سے آمادہ سجدہ ریزی پر آب و گل ہی کے درمیاں ہوں میں موت سے کہیے آئے فرصت میں ابھی مصروف امتحاں ہوں میں کس طرح سے بنے ...

    مزید پڑھیے

    جیسے ہوں لاشیں دفن پرانے کھنڈر کی بنیاد تلے

    جیسے ہوں لاشیں دفن پرانے کھنڈر کی بنیاد تلے احساس دبے ہیں کتنے ہی مری نا گفتہ روداد تلے وہ ذات تو ایک ہی ذات ہے نہ ہر لمحہ جس کو ڈھونڈھتا ہے مومن نور ایمان تلے کافر سنگ الحاد تلے امروز و فردا کرتے رہے تم اور یہاں اہل حسرت کتنے ہی کچلے جاتے رہے بار یوم میعاد تلے کل تک نعرہ آزادی ...

    مزید پڑھیے

    دوبارہ معجزہ ہو جائے گا کیا

    دوبارہ معجزہ ہو جائے گا کیا وہ پاگل پھر مرا ہو جائے گا کیا لہو تازہ زمیں پر تھوکنے سے جنوں کا حق ادا ہو جائے گا کیا یہ دل بیت الشرف ہے حادثوں کا یہ دل مسکن ترا ہو جائے گا کیا اندھیری رات کا دامن جلا کر چراغوں کا بھلا ہو جائے گا کیا تری آنکھوں میں پل بھر جھانکنے سے محبت کا نشہ ہو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2