Nadeem Gullani

ندیم گلانی

ندیم گلانی کی نظم

    محبت

    تجھ کو گر میری ضرورت ہے تو پھر جان حیات اپنے فرسودہ محبت کے خیالات بدل ہجر و غم رنج و الم وصل و فراق اس کٹھن وقت میں بے جا سی شکایات نہ کر دیکھ وہ سب بھی تو میں دیکھ کہ پہنچا ہوں یہاں جس کو تو دیکھ لے اک بار تو تیری آنکھیں عمر بھر سکتے کے عالم سے نہ نکل پائیں دیکھ میں اس عجب مقام ...

    مزید پڑھیے

    تجھے تحریر کیا

    ایک اک حرف سجا کر تجھے تحریر کیا خون کی ندیاں بہا کر تجھے تحریر کیا درد میں عمر بتا کر تجھے تحریر کیا اب تو کہتا ہے مرا کوئی بھی کردار نہیں میرا کیا ہے، میں انہی راستوں میں رہتا ہوں مجھ کو یہ حکم ہے جا، جا کے پتھروں کو تراش میں ازل سے اسی اک کام میں لایا گیا ہوں میں کبھی پیر، پیمبر، ...

    مزید پڑھیے

    کئی سال بعد

    ملے ہم جو اب کے کئی سال بعد تمہیں بھی ملامت مجھے بھی ملال تمہارے بھی چہرے کے پھیکے تھے رنگ میرا چہرہ جیسے بھٹکتا ملنگ کئی راز چپ کی صداؤں میں تھے ہماری سلگتی وفاؤں میں تھے عجب وقت و منظر عجب ماہ و سال نہ کوئی جواب اور نہ کوئی سوال بڑی کوششیں کی کہ اک ہو سکیں ذرا کھل کے ہنس لیں ذرا ...

    مزید پڑھیے

    سرحد

    کیا خوب ہو گر اس دنیا سے سرحد کا نام ختم ہو جائے سارے دیس۔۔۔۔ سب کے دیس ہوں روح کو جسم اور جسم کو روح سے ملنے کے لئے کسی ویزے کی ضرورت نہ ہو جو چاہے، جب چاہے، جہاں چاہے جس سے ملے۔۔۔۔ جو چاہے، جب چاہے، جہاں چاہے چلا جائے۔۔۔۔ کوئی پابندی نہ ہو۔۔۔۔ کاغذ پہ لگائی ہوئی لکیروں سے دنیا کے ...

    مزید پڑھیے

    دسمبر

    ابھی پھر سے پھوٹے گی یادوں کی کونپل ابھی رگ سے جاں ہے نکلنے کا موسم ابھی خوشبو تیری مرے من میں ہمدم صبح شام تازہ توانا رہے گی ابھی سرد جھونکوں کی لہریں چلی ہیں کہ یہ ہے کئی غم پنپنے کا موسم سسکنے سلگنے تڑپنے کا موسم دسمبر دسمبر دسمبر دسمبر

    مزید پڑھیے