ندیم فاضلی کی غزل

    اب اپنی ذات کا عرفان ہونے والا ہے

    اب اپنی ذات کا عرفان ہونے والا ہے خدا سے رابطہ آسان ہونے والا ہے گنوا چکا ہوں میں چالیس سال جس کے لیے وہ ایک پل مری پہچان ہونے والا ہے اسی لیے تو جلاتا ہوں آندھیوں میں چراغ یقین ہے کہ نگہبان ہونے والا ہے اب اپنے زخم نظر آ رہے ہیں پھول مجھے شعور درد پشیمان ہونے والا ہے مرے لیے ...

    مزید پڑھیے

    کہاں کوئی خزانہ چاہتا ہوں

    کہاں کوئی خزانہ چاہتا ہوں ذرا سا مسکرانا چاہتا ہوں مجھے موجیں اچھالے جا رہی ہیں میں کب سے ڈوب جانا چاہتا ہوں جو پرکھوں کا سنہرا کل یہی ہے تو واپس لوٹ جانا چاہتا ہوں کوئی دل ہو کرائے کا مکاں ہے میں اب ذاتی ٹھکانہ چاہتا ہوں خدا میری انا محفوظ رکھے میں دو روٹی کمانا چاہتا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3