ندیم فاضلی کی غزل

    کسی بھی روشن خیال سے آشنا نہیں ہے

    کسی بھی روشن خیال سے آشنا نہیں ہے جو آپ اپنے جمال سے آشنا نہیں ہے اسے خیالوں میں جیسا چاہوں تراش لوں گا ابھی نظر خد و خال سے آشنا نہیں ہے ابھی تو دعویٰ ہے اس کو مشکل پسندیوں کا ابھی وہ کار محال سے آشنا نہیں ہے ابھی تو مٹی مہک اٹھی ہے نمی کو پا کر ابھی وہ پانی کی چال سے آشنا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    کی تو نے لب کشائی تو کس کے حضور کی

    کی تو نے لب کشائی تو کس کے حضور کی اب کرچیاں سمیٹ دل ناصبور کی کس کے لہو میں شام نہا کر ہے سرخ رو کس نے چکائی خون سے قیمت غرور کی صدیوں سے کس کی قبر پہ گریہ کناں ہے رات لیٹا ہے کون اوڑھ کے چادر یہ نور کی علم و کمال آپ کی میراث کیا کہا پرتیں نہ کھولیے میرے تحت الشعور کی تقدیر جتنا ...

    مزید پڑھیے

    بصیرتوں کا نظر احترام کرتی ہے

    بصیرتوں کا نظر احترام کرتی ہے سماعتوں سے خموشی کلام کرتی ہے خزاں کا راز جو آنکھوں پہ منکشف ہو جائے تو زرد رت بھی بہاروں کا کام کرتی ہے کہاں کا ظرف کہاں کا وقار یہ دنیا نگاہ جیب پہ رکھ کر سلام کرتی ہے ضرورتیں در شاہی پہ لے کے جاتی ہیں مری انا مجھے اپنا غلام کرتی ہے حصار سود و ...

    مزید پڑھیے

    راز فطرت سے عیاں ہو کوئی منظر کوئی دھن

    راز فطرت سے عیاں ہو کوئی منظر کوئی دھن ساز ہستی سے بھی نکلے کوئی پیکر کوئی دھن میں وہ آواز جو اب تک ہے سماعت سے پرے میں وہ نغمہ ابھی اتری نہیں جس پر کوئی دھن اک غزل چھیڑ کے روتا رہا مجھ میں کوئی اک سماں باندھ کے ہنستی رہی مجھ پر کوئی دھن اونگھنے لگتی ہے جب پاؤں کے چھالوں کی ...

    مزید پڑھیے

    اپنی روداد یوں بیاں ہو جائے

    اپنی روداد یوں بیاں ہو جائے اک پتنگا جلے دھواں ہو جائے خاک مل جائے خاک میں میری یا ستاروں میں ضو فشاں ہو جائے اس کی صورت پہ تبصرہ کیسا آئنہ جس سے بد گماں ہو جائے یہ جہاں خواب ہے مگر ایسا آنکھ موندیں تو رائیگاں ہو جائے اپنی رسوائیاں مجھے منظور تو اگر میرا راز داں ہو جائے میری ...

    مزید پڑھیے

    دل کی راہیں روشن کرتے رہتے ہیں

    دل کی راہیں روشن کرتے رہتے ہیں کس کے گھنگھرو چھن چھن کرتے رہتے ہیں دنیا جس کی کھوج میں پاگل پھرتی ہے ہم تو اس کے درشن کرتے رہتے ہیں اندر کی بے رنگی شاید چھپ جائے باہر رنگ و روغن کرتے رہتے ہیں ان سے پوچھو آنے والی رت کا حال جو پت جھڑ کو ساون کرتے رہتے ہیں ان کے دل میں گھر کر لینا ...

    مزید پڑھیے

    مرحلہ اب کے دگر ہے آئنے کے سامنے

    مرحلہ اب کے دگر ہے آئنے کے سامنے معتبر نا معتبر ہے آئنے کے سامنے آج شاید آئینے کا جھوٹ پکڑا جائے گا آج وہ صاحب نظر ہے آئنے کے سامنے دھند میں ڈوبے ہوئے سارے مناظر دیکھ کر آئنے کی آنکھ تر ہے آئنے کے سامنے جھریاں چہرے کی یہ بچپن کی وہ معصومیت ایک لمحے کا سفر ہے آئنے کے سامنے ہر ...

    مزید پڑھیے

    ہر ایک بات کسی بات پر ہے گویا طنز

    ہر ایک بات کسی بات پر ہے گویا طنز مری زبان مری ذات پر ہے گویا طنز نہ وہ خلوص کی گرمی نہ والہانہ پن کسی سے ملنا ملاقات پر ہے گویا طنز نگاہ آدم خاکی کی وسعتوں کا بیاں تمام ارض و سماوات پر ہے گویا طنز عجیب شخص ہے اس کی بس ایک خاموشی زمانے بھر کی خرافات پر ہے گویا طنز کسی کے ہاتھ پہ ...

    مزید پڑھیے

    یوں خوش گمان رکھا گیا عمر بھر مجھے

    یوں خوش گمان رکھا گیا عمر بھر مجھے ہر شام سے ملی ہے نوید سحر مجھے میں تھا جو حد جسم سے آگے نہ بڑھ سکا وہ لے گیا بدن سے مرے چھین کر مجھے میں ضائع ہو چکا ہوں بہت کھیل کھیل میں اے وقت اب نہ اور لگا داؤ پر مجھے میرے لیے قضا ہے ابھی دائمی حیات کچھ لوگ چاہتے ہیں ابھی ٹوٹ کر مجھے ہونا ...

    مزید پڑھیے

    سب کو یہ فکر ہاتھ سے اب ایک پل نہ جائے

    سب کو یہ فکر ہاتھ سے اب ایک پل نہ جائے دنیا حدود وقت سے آگے نکل نہ جائے سب کو فریب دے مگر اتنا رہے خیال بہروپ بھرتے بھرتے یہ چہرہ بدل نہ جائے غم سے نباہ کیجیے اس تمکنت کے ساتھ دل کا شرارہ آنکھ کی حد تک مچل نہ جائے ذوق نظر دیا ہے تو ظرف نظر بھی دے ڈر ہے مجھے شعور کی وسعت نگل نہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3