ندیم فاضلی کی غزل

    آسماں عشق کی عظمت کے سوا بھی کچھ ہے

    آسماں عشق کی عظمت کے سوا بھی کچھ ہے کیا یہ صحرا مری وحشت کے سوا بھی کچھ ہے موند لوں آنکھ تو بے کار ہے سب رنگ جہاں کیا مری چشم عنایت کے سوا بھی کچھ ہے کچھ تو ہے جس کے بتانے سے ہوں قاصر لیکن اب ترے درد میں لذت کے سوا بھی کچھ ہے میری آنکھوں سے کوئی اس کا سراپا دیکھے تب کھلے گا کہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ یک بہ یک اسے دل میں اتارنے کا عمل

    وہ یک بہ یک اسے دل میں اتارنے کا عمل وہ اپنی ذات پہ شب خون مارنے کا عمل ہزار وسوسے دل میں اور اک دہکتا الاؤ حیات دشت میں راتیں گزارنے کا عمل بس ایک خوشۂ گندم اور ایسی دربدری وہ آسماں کو زمیں پر اتارنے کا عمل یہ عمر میز ہے گویا قمار خانے کی بس ایک جیت کی خواہش میں ہارنے کا عمل وہ ...

    مزید پڑھیے

    مشکلیں خال خال چاہتے ہیں

    مشکلیں خال خال چاہتے ہیں شوق میں اعتدال چاہتے ہیں کٹ کے اپنی جڑوں سے کچھ پودے سبز موسم کی شال چاہتے ہیں کم سے کم خود سے تو ہیں مخلص وہ جو ہمیں حسب حال چاہتے ہیں لاکھ جینا حرام ہو ہم پر ہم تو رزق حلال چاہتے ہیں کیا کمی آ گئی ہے چاہت میں زخم کیوں اندمال چاہتے ہیں آنکھ پتھرا گئی ...

    مزید پڑھیے

    آپ کو مجھ سے خفا مجھ سے خفا دیکھتا ہوں

    آپ کو مجھ سے خفا مجھ سے خفا دیکھتا ہوں پھوٹتی کیوں نہیں آنکھیں مری کیا دیکھتا ہوں روز اس روح کی ویرانیاں کھل اٹھتی ہیں روز اس دشت میں اک آبلہ پا دیکھتا ہوں گل کھلاتے ہیں نیا روز یہ رشتے ناطے روز ہی خون کا اک رنگ نیا دیکھتا ہوں ایک سچ یہ ہے جو دنیا کو برتنے پہ کھلا ایک سچ وہ جو ...

    مزید پڑھیے

    معرکہ ہی معرکہ چاروں طرف

    معرکہ ہی معرکہ چاروں طرف اک ہجوم کربلا چاروں طرف توڑ دے اس دائرے کو توڑ دے راستہ ہے راستہ چاروں طرف مجھ کو کیسی خامشی درکار تھی اور کیسا شور تھا چاروں طرف وقت وہ جب میرے اندر میں نہ تھا کون تھا میرے سوا چاروں طرف عمر بھر مکار آنکھوں نے مجھے وہ دکھایا جو نہ تھا چاروں طرف اچھے ...

    مزید پڑھیے

    اک قرب جو قربت کو رسائی نہیں دیتا

    اک قرب جو قربت کو رسائی نہیں دیتا اک فاصلہ احساس جدائی نہیں دیتا اک تیرگی دیتی ہے بصارت کے قرینے اک روشنی وہ جس میں سجھائی نہیں دیتا اک قید ہے آزادیٔ افکار بھی گویا اک دام جو اڑنے سے رہائی نہیں دیتا اک آہ خطا گریہ بہ لب صبح ازل سے اک در ہے جو توبہ کو رسائی نہیں دیتا اک شوق ...

    مزید پڑھیے

    رات کی زلف کہیں تا بہ کمر کھل جائے

    رات کی زلف کہیں تا بہ کمر کھل جائے ہم پہ بھی چاند ستاروں کی ڈگر کھل جائے تھک گئی نیند مرے خواب کو ڈھوتے ڈھوتے کیا تعجب ہے مری آنکھ اگر کھل جائے میرا سرمایہ مرے پاؤں کے چھالوں کی تپک راستے میں ہی نہ سب زاد سفر کھل جائے آج دریا نہیں کوزے میں سمانے والا وقت ہے مجھ پہ مرا زعم ہنر ...

    مزید پڑھیے

    جنم جنم کی تکان ہوتی نہ بال و پر میں

    جنم جنم کی تکان ہوتی نہ بال و پر میں جو چند لمحے گزار لیتا تری نظر میں چلے ہو گھر سے تو کام آئیں گے ساتھ لے لو وفا کی خوشبو وفا کا سایہ کڑے سفر میں روایتوں سے گریز کیسا چلو جگائیں نصیب سویا ہوا ہے اپنا اسی کھنڈر میں غضب کا سود و زیاں ہے اپنے مزاج میں اب بلا کی ٹھنڈک اتر چکی ہے رگ ...

    مزید پڑھیے

    عجیب جنگ و جدال ہر پل ہے میرے اندر

    عجیب جنگ و جدال ہر پل ہے میرے اندر کہ نور و ظلمت کا ایک مقتل ہے میرے اندر اگے ہیں مجھ میں ہزار ہا خار زار پودے پھر اس پہ طرہ کہ روح ململ ہے میرے اندر یہ کیسی بے معنی زندگی ہو کے رہ گئی ہے نہ کچھ ادھورا نہ کچھ مکمل ہے میرے اندر میں جانتا ہوں کہ ختم ہوگا نہ یہ تعفن مگر لٹاؤں گا ...

    مزید پڑھیے

    ہمیں پہ تنگ یہ وقت رواں ہوا تو کیا

    ہمیں پہ تنگ یہ وقت رواں ہوا تو کیا دراز اور بھی کار جہاں ہوا تو کیا یہ سرخ تلوے یہ تنہائی آخری ہچکی اب اس سے آگے کوئی کارواں ہوا تو کیا یہ راستے ہیں بزرگوں کی خاک سے روشن سو میں بھی چل کے یہیں رائیگاں ہوا تو کیا یہاں تو شہر ہی آتش فشاں کی زد پر ہے جو اپنے سینے میں تھوڑا دھواں ہوا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3