Muzaffar Abdali

مظفر ابدالی

مظفر ابدالی کی غزل

    ریت کے شانوں پہ شبنم کی نمی رات گئے

    ریت کے شانوں پہ شبنم کی نمی رات گئے اور کچھ تیز ہوئی تشنہ لبی رات گئے بام و در جاگ اٹھے شوق نے آنکھیں کھولیں دل کی دہلیز پہ دستک سی ہوئی رات گئے میرے سینے میں کسی آگ کا جلنا دن بھر اس کے ہونٹوں پہ وہ ہلکی سی ہنسی رات گئے اک اسی خواب نے کیا کیا نہ تماشا دیکھا نیند کے ہاتھ میں جادو ...

    مزید پڑھیے

    ریت پر اک نشان ہے شاید

    ریت پر اک نشان ہے شاید یہ ہمارا مکان ہے شاید شور کے بیچ سو رہی ہے زمیں مدتوں کی تھکان ہے شاید درد کا اشتہار چسپاں ہے زندگی کی دکان ہے شاید تنہا تنہا نکل پڑے پنچھی عہد نو کی اڑان ہے شاید عقل کہتی ہے مر چکا رشتہ شوق کہتا ہے جان ہے شاید وہ جہاں پر پگھل رہی ہے دھوپ ہاں وہیں سائبان ...

    مزید پڑھیے

    خواب امید سے سرشار بھی ہو جائے تو کیا

    خواب امید سے سرشار بھی ہو جائے تو کیا دشت تو دشت ہے بازار بھی ہو جائے تو کیا اب کہاں کوئی ستاروں کو گنا کرتا ہے میرا ہر زخم نمودار بھی ہو جائے تو کیا سو چکی شام اندھیرے کا ہے سایہ دل پر آج خواہش کوئی بیدار بھی ہو جائے تو کیا زندگی اپنی نہ بدلی ہے نہ بدلے گی کبھی خاک پا زینت دستار ...

    مزید پڑھیے

    خلوت جاں سے چلی بات زباں تک پہنچی

    خلوت جاں سے چلی بات زباں تک پہنچی کوئی چنگاری انگیٹھی سے دھواں تک پہنچی راز و اسرار کے کھلنے کی توقع تھی کسے اک کہانی تھی کسی طرح بیاں تک پہنچی رہگزر کا ہے تقاضا کہ ابھی اور چلو ایک امید جو منزل کے نشاں تک پہنچی باعث راحت و غم لطف کرم تھا ورنہ جتنی خواہش تھی فقط سود و زیاں تک ...

    مزید پڑھیے

    میں جو بد حواس تھا محو قیاس تم بھی تھے

    میں جو بد حواس تھا محو قیاس تم بھی تھے بچھڑتے وقت ذرا سا اداس تم بھی تھے بدلتے وقت کا منظر تھا سب کی آنکھوں میں مثال میں تھا اگر اقتباس تم بھی تھے مجھے تو دار ملا تم کو کیسے تخت ملا سنا ہے میری طرح حق شناس تم بھی تھے تمہارے ہونٹ سے خوشیاں چھلک گئیں کیسے اٹھائے ہاتھ میں خالی گلاس ...

    مزید پڑھیے

    کس نے دیکھی ہے بہاروں میں خزاں میرے سوا

    کس نے دیکھی ہے بہاروں میں خزاں میرے سوا کون کر سکتا ہے یہ قصہ بیاں میرے سوا کس کو معلوم ہے صحرا کی ہواؤں کا مزاج ریت پر کون بنائے گا مکاں میرے سوا سب فقیران شب ہجر وطن چھوڑ گئے کون اب دے گا بیاباں میں اذاں میرے سوا تھپکیاں کون سر دشت مجھے دیتا ہے کیا کوئی اور بھی رہتا ہے یہاں ...

    مزید پڑھیے

    یقین آج بھی وہم و گمان میں گم ہے

    یقین آج بھی وہم و گمان میں گم ہے زمین جیسے کہیں آسمان میں گم ہے یہ آفتاب بھی کس زاویے سے ڈھلتا ہے ذرا سی دھوپ لیے آن بان میں گم ہے دریچے دور ہوئے جاتے ہیں مکینوں سے صبا بھی صرف طواف مکان میں گم ہے میں ایک بت ہوں عجائب گھروں میں رکھا ہوا مرا وجود مری داستان میں گم ہے نتیجہ پھر سے ...

    مزید پڑھیے

    خدا بھی کیسا ہوا خوش مرے قرینے پر

    خدا بھی کیسا ہوا خوش مرے قرینے پر مجھے شہید کا درجہ ملا ہے جینے پر کھنڈر کے گنبد و محراب جاگ اٹھیں گے اسے کہو کہ وہ دھیرے سے آئے زینے پر لکیر ہے نہ کوئی رنگ ہے نہ کلمہ ہے یہ کیسا نقش بنایا ہے میرے سینے پر ابھی امید نئی وسعتوں کی قائم ہے ابھی وہ لوٹ کے آیا نہیں سفینے پر چھتیں بھی ...

    مزید پڑھیے

    رونق ارض و سما شمس و قمر میں ہی ہوں

    رونق ارض و سما شمس و قمر میں ہی ہوں غور سے دیکھیے تاحد نظر میں ہی ہوں ہو لیے سارے تماشائی کسی منزل کے رہ گیا میں سو سر راہ گزر میں ہی ہوں مجھ سے مت پوچھ کہ کس طرح سے اجڑی بستی مجھ کو بس دیکھ لے روداد و خبر میں ہی ہوں میں بھی محتاج مسیحائی ترا ہوں لیکن مت ادھر آ کہ مری جان ادھر میں ...

    مزید پڑھیے

    خموشی کی گرہ کھولے سر آواز تک آئے

    خموشی کی گرہ کھولے سر آواز تک آئے اشارہ کوئی تو سمجھے کوئی تو راز تک آئے کوئی انجام کب سے منتظر ہے اک حاضر کا کوئی رخت سفر باندھے کوئی آغاز تک آئے زمین دل یہ جم جانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا غبار شوق سے کہہ دو ذرا پرواز تک آئے کوئی محفل بڑی خاموش ہے یادوں سے پھر کہہ دو رباب جاں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2