Muzaffar Abdali

مظفر ابدالی

مظفر ابدالی کے تمام مواد

11 غزل (Ghazal)

    ریت کے شانوں پہ شبنم کی نمی رات گئے

    ریت کے شانوں پہ شبنم کی نمی رات گئے اور کچھ تیز ہوئی تشنہ لبی رات گئے بام و در جاگ اٹھے شوق نے آنکھیں کھولیں دل کی دہلیز پہ دستک سی ہوئی رات گئے میرے سینے میں کسی آگ کا جلنا دن بھر اس کے ہونٹوں پہ وہ ہلکی سی ہنسی رات گئے اک اسی خواب نے کیا کیا نہ تماشا دیکھا نیند کے ہاتھ میں جادو ...

    مزید پڑھیے

    ریت پر اک نشان ہے شاید

    ریت پر اک نشان ہے شاید یہ ہمارا مکان ہے شاید شور کے بیچ سو رہی ہے زمیں مدتوں کی تھکان ہے شاید درد کا اشتہار چسپاں ہے زندگی کی دکان ہے شاید تنہا تنہا نکل پڑے پنچھی عہد نو کی اڑان ہے شاید عقل کہتی ہے مر چکا رشتہ شوق کہتا ہے جان ہے شاید وہ جہاں پر پگھل رہی ہے دھوپ ہاں وہیں سائبان ...

    مزید پڑھیے

    خواب امید سے سرشار بھی ہو جائے تو کیا

    خواب امید سے سرشار بھی ہو جائے تو کیا دشت تو دشت ہے بازار بھی ہو جائے تو کیا اب کہاں کوئی ستاروں کو گنا کرتا ہے میرا ہر زخم نمودار بھی ہو جائے تو کیا سو چکی شام اندھیرے کا ہے سایہ دل پر آج خواہش کوئی بیدار بھی ہو جائے تو کیا زندگی اپنی نہ بدلی ہے نہ بدلے گی کبھی خاک پا زینت دستار ...

    مزید پڑھیے

    خلوت جاں سے چلی بات زباں تک پہنچی

    خلوت جاں سے چلی بات زباں تک پہنچی کوئی چنگاری انگیٹھی سے دھواں تک پہنچی راز و اسرار کے کھلنے کی توقع تھی کسے اک کہانی تھی کسی طرح بیاں تک پہنچی رہگزر کا ہے تقاضا کہ ابھی اور چلو ایک امید جو منزل کے نشاں تک پہنچی باعث راحت و غم لطف کرم تھا ورنہ جتنی خواہش تھی فقط سود و زیاں تک ...

    مزید پڑھیے

    میں جو بد حواس تھا محو قیاس تم بھی تھے

    میں جو بد حواس تھا محو قیاس تم بھی تھے بچھڑتے وقت ذرا سا اداس تم بھی تھے بدلتے وقت کا منظر تھا سب کی آنکھوں میں مثال میں تھا اگر اقتباس تم بھی تھے مجھے تو دار ملا تم کو کیسے تخت ملا سنا ہے میری طرح حق شناس تم بھی تھے تمہارے ہونٹ سے خوشیاں چھلک گئیں کیسے اٹھائے ہاتھ میں خالی گلاس ...

    مزید پڑھیے

تمام

4 نظم (Nazm)

    نربھیا کی موت پر

    کبھی خرد کی کھلی دھوپ میں چلا آیا کبھی میں عشق کے سائے میں جا کے بیٹھ گیا کبھی کتاب کھنگالی کبھی ستارے گنے حرم میں دیر میں گرجا میں ہر طرف ڈھونڈا تجھے صدائیں لگائیں تجھے تلاش کیا مگر اے روح کہیں تو نظر نہیں آئی میں تھک کے ہار کے لوٹا تو کس طرح لوٹا کہ اپنی جسم کی سرحد پہ آ گیا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    کسے گماں تھا

    کسے گماں تھا کہ آسماں سے زمیں پہ پیغام آ سکیں گے پیمبروں کی جماعتوں میں ہم آدمی کا شمار ہوگا کسے گماں تھا کہ بادشاہوں کے تخت قدموں میں آ گریں گے کسے گماں تھا کہ معجزے سب حقیقتوں سے دکھائی دیں گے کسے گماں تھا مشیں چلے گی تو ابن آدم کا خوں جلے گا کسے گماں تھا کہ شاہراہوں پہ حشر جیسی ...

    مزید پڑھیے

    آٹھواں دروازہ

    بس ایک راہ پہنچتی تھی شاہزادی تک وہ راہ جس میں ہزاروں تھے پہرے دار کھڑے پھر اس کے بعد حویلی کے سات دروازے مگر کمال تھے شہزادگان وقت بھی جو سفید گھوڑوں پہ ہو کر سوار نکلے اور حویلیوں سے چرا لائے اپنی شہزادی یہ ایک میں کہ تمہاری گلی میں جب بھی بڑھا مری انا کا پرانا سا ایک دروازہ مرے ...

    مزید پڑھیے

    صداقت

    وہ ایک شام قلم کھو گیا تھا جب میرا بہت تلاش کیا ہر طرف ادھر کہ ادھر مگر قلم کا کہیں پر نشاں نہ ہاتھ آیا مری تلاش مری کشمکش سے گھبرا کر مری وہ چھوٹی سی بیٹی مرے قریب آئی کہ جس نے لکھنا ابھی بس ابھی ہی سیکھا ہے مرے حوالے کیا اپنی ایک پنسل اور کہا کہ آپ اسے اپنے واسطے رکھیے مگر عجیب سا ...

    مزید پڑھیے