Muzaffar Abdali

مظفر ابدالی

مظفر ابدالی کی نظم

    نربھیا کی موت پر

    کبھی خرد کی کھلی دھوپ میں چلا آیا کبھی میں عشق کے سائے میں جا کے بیٹھ گیا کبھی کتاب کھنگالی کبھی ستارے گنے حرم میں دیر میں گرجا میں ہر طرف ڈھونڈا تجھے صدائیں لگائیں تجھے تلاش کیا مگر اے روح کہیں تو نظر نہیں آئی میں تھک کے ہار کے لوٹا تو کس طرح لوٹا کہ اپنی جسم کی سرحد پہ آ گیا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    کسے گماں تھا

    کسے گماں تھا کہ آسماں سے زمیں پہ پیغام آ سکیں گے پیمبروں کی جماعتوں میں ہم آدمی کا شمار ہوگا کسے گماں تھا کہ بادشاہوں کے تخت قدموں میں آ گریں گے کسے گماں تھا کہ معجزے سب حقیقتوں سے دکھائی دیں گے کسے گماں تھا مشیں چلے گی تو ابن آدم کا خوں جلے گا کسے گماں تھا کہ شاہراہوں پہ حشر جیسی ...

    مزید پڑھیے

    آٹھواں دروازہ

    بس ایک راہ پہنچتی تھی شاہزادی تک وہ راہ جس میں ہزاروں تھے پہرے دار کھڑے پھر اس کے بعد حویلی کے سات دروازے مگر کمال تھے شہزادگان وقت بھی جو سفید گھوڑوں پہ ہو کر سوار نکلے اور حویلیوں سے چرا لائے اپنی شہزادی یہ ایک میں کہ تمہاری گلی میں جب بھی بڑھا مری انا کا پرانا سا ایک دروازہ مرے ...

    مزید پڑھیے

    صداقت

    وہ ایک شام قلم کھو گیا تھا جب میرا بہت تلاش کیا ہر طرف ادھر کہ ادھر مگر قلم کا کہیں پر نشاں نہ ہاتھ آیا مری تلاش مری کشمکش سے گھبرا کر مری وہ چھوٹی سی بیٹی مرے قریب آئی کہ جس نے لکھنا ابھی بس ابھی ہی سیکھا ہے مرے حوالے کیا اپنی ایک پنسل اور کہا کہ آپ اسے اپنے واسطے رکھیے مگر عجیب سا ...

    مزید پڑھیے