Mushtaq Anjum

مشتاق انجم

مشتاق انجم کی غزل

    قہقہے کی موت ہے یا موت کی آواز ہے

    قہقہے کی موت ہے یا موت کی آواز ہے سسکیاں لیتا ہوا اب زندگی کا ساز ہے ایک سایہ لڑکھڑاتا آ رہا ہے اس طرف دیکھیے تو اک حقیقت سوچئے تو راز ہے ریت میں منہ ڈال کر سانسوں کا اس کا روکنا چند سکوں کے لئے بچہ بڑا جانباز ہے سوچ کی منزل کہیں ہے اور آنکھیں ہیں کہیں جانتا ہوں کس میں کتنی قوت ...

    مزید پڑھیے

    یاد تو آئے کئی چہرے ہر اک گام کے بعد

    یاد تو آئے کئی چہرے ہر اک گام کے بعد کوئی بھی نام کہاں آیا ترے نام کے بعد دشت و دریا میں کبھی گلشن صحرا میں کبھی میں رہا محو سفر اک ترے پیغام کے بعد گامزن راہ جنوں پر ہیں تو پھر سوچنا کیا کسی انجام سے پہلے کسی انجام کے بعد دل کا ہر کام فقط اس کی نظر کرتی ہے نام آتا ہے مگر میرا ہر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2