قہقہے کی موت ہے یا موت کی آواز ہے
قہقہے کی موت ہے یا موت کی آواز ہے سسکیاں لیتا ہوا اب زندگی کا ساز ہے ایک سایہ لڑکھڑاتا آ رہا ہے اس طرف دیکھیے تو اک حقیقت سوچئے تو راز ہے ریت میں منہ ڈال کر سانسوں کا اس کا روکنا چند سکوں کے لئے بچہ بڑا جانباز ہے سوچ کی منزل کہیں ہے اور آنکھیں ہیں کہیں جانتا ہوں کس میں کتنی قوت ...