Mushtaq Anjum

مشتاق انجم

مشتاق انجم کی غزل

    مرا دل عجب شادمانی میں گم ہے

    مرا دل عجب شادمانی میں گم ہے کہ وہ آج میری کہانی میں گم ہے سمجھتا ہے دل تیرے طرز سخن کو مگر تیری جادو بیانی میں گم ہے میں ہوں فطرتاً موج سے لڑنے والا وہ ملاح کیا جو روانی میں گم ہے اسے کیا پتا کیا ہے صحرا نوردی ہواؤں کی جو بے زبانی میں گم ہے بہت ٹیس اٹھتی ہے دیکھے سے اس کو وہ کیا ...

    مزید پڑھیے

    شام غم سے شب اندوہ سے چشم تر سے

    شام غم سے شب اندوہ سے چشم تر سے باز آیا میں تری یاد کے اس لشکر سے یاں شب و روز ہے مطلب کسے خیر و شر سے زندگی کا ہے عجب سلسلہ سیم و زر سے جو تجھے چاہا بتانا نہ بتایا پھر بھی کب چھپا حال دل سوختہ نامہ بر سے بعد تکمیل ہوئی گھر کی حقیقت معلوم گھر کہاں بنتا ہے دیوار سے چھت سے در ...

    مزید پڑھیے

    اشک پلکوں پہ جو آئیں تو چھپائے نہ بنے

    اشک پلکوں پہ جو آئیں تو چھپائے نہ بنے ٹوٹ کر بکھریں یہ موتی تو اٹھائے نہ بنے قہر ہے اپنے لیے سوز دروں کا عالم دیکھنا گر کوئی چاہے تو دکھائے نہ بنے کس طرح ہاتھ اٹھاؤں میں دعا کی خاطر ہاتھ اک پل بھی تو سینے سے ہٹائے نہ بنے قصۂ حسرت دل ہم سے بیاں کیا ہوگا بے رخی ان کی ہے ایسی کہ ...

    مزید پڑھیے

    بال و پر رکھتے نہیں عزم سفر رکھتے ہیں

    بال و پر رکھتے نہیں عزم سفر رکھتے ہیں شوق پرواز بہ انداز دگر رکھتے ہیں ہاتھ اٹھانے کی کوئی شرط دعا میں کب ہے تیرے عشاق نگاہوں میں اثر رکھتے ہیں بالارادہ نہ سہی یوں ہی کبھی آ جاؤ پیار کے رستے میں ہم چھوٹا سا گھر رکھتے ہیں یہ الگ بات کہ آتے ہیں نظر ذرہ صفت ورنہ قدموں میں تو ہم شمس ...

    مزید پڑھیے

    ناؤ ٹوٹی ہوئی بپھرا ہوا دریا دیکھا

    ناؤ ٹوٹی ہوئی بپھرا ہوا دریا دیکھا اہل ہمت نے مگر پھر بھی کنارا دیکھا گرچہ ہر چیز یہاں ہم نے بری ہی دیکھی پھر بھی کہنا پڑا جو دیکھا سو اچھا دیکھا دیپ سے دیپ جلانے کی ہوئی رسم تمام ہم نے انسان کا انسان سے جلنا دیکھا جب سے بچے نے کھلونے سے بہلنا چھوڑا دس برس میں ہی اسے تیس کے سن ...

    مزید پڑھیے

    سبھی تو ہیں مگر اب مہرباں کہاں ہے کوئی

    سبھی تو ہیں مگر اب مہرباں کہاں ہے کوئی نظر میں پیار لیے درمیاں کہاں ہے کوئی اک اپنا سر ہی نہیں دل بھی میں جھکا دوں گا مگر بتاؤ ذرا آستاں کہاں ہے کوئی ستم گری کی حدیں اس نے توڑ ڈالی ہیں ہماری طرح مگر بے زباں کہاں ہے کوئی کبھی تو پورے شجر پر تھا اپنا کاشانہ ہمارے نام کا اب آشیاں ...

    مزید پڑھیے

    تیری الفت کو جگا رکھا ہے

    تیری الفت کو جگا رکھا ہے دل میں طوفان اٹھا رکھا ہے رنج و راحت ہیں گلے شکوے ہیں کیسا گھر بار سجا رکھا ہے اس کا احسان کہ اس کے دل نے فاصلہ ہم سے سدا رکھا ہے وقت کیوں ریت سا پھسلا جائے ہم نے مٹھی میں دبا رکھا ہے سامنے رہتے ہوئے بھی اس نے خود کو پردے میں چھپا رکھا ہے شاد ہر پل ہیں ...

    مزید پڑھیے

    شفاف سطح آب کا منظر کہاں گیا

    شفاف سطح آب کا منظر کہاں گیا آئینہ چور چور ہے پتھر کہاں گیا روزن کھلا تھا دل کا ہوائیں بھی آئی تھیں لیکن قریب تر تھا جو دلبر کہاں گیا اک وہ کہ جس کو فرصت لطف و کرم نہیں اک میں کہ سوچتا ہوں ستم گر کہاں گیا سینے سے اس کا ہاتھ ہٹانا محال تھا جاتے ہوئے وہ ہاتھ ہلا کر کہاں گیا پہلے ...

    مزید پڑھیے

    اس کی آنکھوں میں حیا اور اشارہ بھی ہے

    اس کی آنکھوں میں حیا اور اشارہ بھی ہے بند ہونٹوں سے مجھے اس نے پکارا بھی ہے اس نے کاندھے پہ ہمارے جو کبھی سر رکھا یوں لگا زیست میں کوئی تو ہمارا بھی ہے ریت بھی گرم ہے اور دھوپ بھی ہے تیز مگر اس کی پر کیف رفاقت کا سہارا بھی ہے چوم کر ہاتھ مرا دیتا ہے وہ دل کو کسک کیسا دشمن ہے کہ جو ...

    مزید پڑھیے

    دل میں کچھ ہے بیان میں کچھ ہے

    دل میں کچھ ہے بیان میں کچھ ہے آپ کی داستان میں کچھ ہے میرے وہم و گمان سے بڑھ کر ان کے تیر و کمان میں کچھ ہے پاؤں رکھیے سنبھل کے بستی میں گھر میں کچھ سائبان میں کچھ ہے پیرو مذہب محبت ہوں دیکھتا کچھ ہوں دھیان میں کچھ ہے جب دلوں میں رہے نہ گنجائش ماں نہ سمجھے مکان میں کچھ ہے رخ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2