آشیانہ مرا برباد نہ کر اے صیاد
آشیانہ مرا برباد نہ کر اے صیاد باغ سے تو مجھے آزاد نہ کر اے صیاد قید تو نے کیا گلچیں نے مرا دل توڑا اس پہ کہتا ہے کہ فریاد نہ کر اے صیاد پھول کمھلا گئے نغموں کا زمانہ نہ رہا پچھلی باتوں کو تو اب یاد نہ کر اے صیاد اک نہ اک روز تو گلشن میں بہار آئے گی خاک میری ابھی برباد نہ کر اے ...