Muntazir lakhnavi

منتظر لکھنوی

  • 1768 - 1803

منتظر لکھنوی کی غزل

    دل کسو سے تو کیا لگانا تھا

    دل کسو سے تو کیا لگانا تھا ہم کو منظور جی سے جانا تھا آستاں تھا وہ آستانۂ عشق کاٹ کر سر جہاں چڑھانا تھا دید کو تیرے آئے تھے ہم یاں زندگی کا فقط بہانہ تھا نکلے وہ آہ اپنے دشمن جاں ہم نے جن جن کو دوست جانا تھا جس زمانہ میں ہم ہوئے تھے خلق ہائے وو کیا برا زمانہ تھا کیوں دیا اس پری ...

    مزید پڑھیے

    اس شوخ کے انداز کو دیکھا تو غضب ہے

    اس شوخ کے انداز کو دیکھا تو غضب ہے اور اس کے سوا ناز کو دیکھا تو غضب ہے باتوں میں جو چھل لیوے ہے دل پیر و جواں کا اس طفل دعا بار کو دیکھا تو غضب ہے کیا کیا نہ کہا اس نے مجھے تیری طرف سے کافر ترے ہم راز کو دیکھا تو غضب ہے ہر چند کہ ہے طوطیٔ ہند ایک ہی خوش گو پر بلبل شیراز کو دیکھا تو ...

    مزید پڑھیے

    دیکھ کر یہ چلن تمہارے ہم

    دیکھ کر یہ چلن تمہارے ہم خاک میں مل گئے بے چارے ہم جن ہیں یا دیو بھوت ہیں کیا ہیں نہیں لگتے جو تم کو پیارے ہم بے قراری سے دل کی شب کو ہائے در پہ اس کے بہت پکارے ہم یہ جو گلزار سا ہے رخ تیرا لیں گے اس باغ کو اجارے ہم داغ اک تحفہ لے کے ہستی میں سوئے ملک عدم سدھارے ہم رات محفل میں ...

    مزید پڑھیے

    یار سے دست و گریباں نہ ہوا تھا سو ہوا

    یار سے دست و گریباں نہ ہوا تھا سو ہوا کبھی اتنا میں پشیماں نہ ہوا تھا سو ہوا واقعی جائے ندامت تو یہی ہے کہ کبھو مجھ سے جو کام عزیزاں نہ ہوا تھا سو ہوا تجھ کو دیکھے کوئی اور اس سے خفا ہونا ہائے کیا کروں اے دل ناداں نہ ہوا تھا سو ہوا کر کے نظارہ تن صاف کا اس کے ہیہات شکل آئینہ جو ...

    مزید پڑھیے

    عاشق زار ہوں دیوانہ ہوں

    عاشق زار ہوں دیوانہ ہوں میں بھی اک شمع کا پروانہ ہوں خانہ آباد جنوں کی دولت باعث رونق ویرانہ ہوں یاد رکھتا ہے مجھے کم کوئی میں دم خواب کا افسانہ ہوں اس سے ہر ایک کو اپنایت ہے کون کہتا ہے میں بیگانہ ہوں لوٹنا اشک کا میں سینہ پر جانتا بازیٔ طفلانہ ہوں منتظرؔ روز ازل سے میں ...

    مزید پڑھیے

    جس کی بخدا اس بت کافر پہ نظر ہے

    جس کی بخدا اس بت کافر پہ نظر ہے چھاتی ہے پہاڑ اس کی تو پتھر کا جگر ہے اے دل در دنداں کو ذرا دیکھ تو اس کے کیا درج میں یاقوت کی یہ سلک گہر ہے کیا صاف کہوں یار کے رخسار کا اوصاف اک غیرت خورشید ہے ایک رشک قمر ہے بینائی کہاں اتنی نظر آئے جو مجھ کو باریک رگ جاں سے بھی کچھ اس کی کمر ...

    مزید پڑھیے

    عمر بھر اس پہ میں مرا ہی کیا

    عمر بھر اس پہ میں مرا ہی کیا وہ مسیحا بھی دم دیا ہی کیا تھا وہ نا آشنا مزاج ولے آخرش ہم نے آشنا ہی کیا عاشقی کے سوا بھی ہم نے اور جو کیا کام سو برا ہی کیا کر گئے قیس و کوہکن جو جو ہم نے اس سے بھی کچھ سوا ہی کیا گو بھلا یا برا تھا شعر اپنا سن کے یاروں نے واہ وا ہی کیا اک نہ اک اس کی ...

    مزید پڑھیے

    خفا ہم سے وہ بے سبب ہو گیا

    خفا ہم سے وہ بے سبب ہو گیا غضب ہو گیا ہے غضب ہو گیا تصور میں زلف و رخ یار کے مرا روز مانند شب ہو گیا میں آگے تو دیوانہ اتنا نہ تھا خدا جانے کیا مجھ کو اب ہو گیا لب نازک اس کے جو یاد آ گئے کئی بار میں جاں بہ لب ہو گیا ترے غم میں سودا و خبط و جنوں جو تھا مجھ کو منظور سب ہو گیا یہ ...

    مزید پڑھیے

    ہم نہ وحشت کے مارے مرتے ہیں

    ہم نہ وحشت کے مارے مرتے ہیں تیری دہشت کے مارے مرتے ہیں مار مت بے مروتی سے انہیں جو مروت کے مارے مرتے ہیں شکوہ کیا کیجے شام غربت کا اپنی شامت کے مارے مرتے ہیں کیا رقیبوں کو ماریے وہ آپ سب رقابت کے مارے مرتے ہیں یار سے دور ہیں وطن سے جدا اس مصیبت کے مارے مرتے ہیں سیکڑوں اس سے ...

    مزید پڑھیے

    یک بیک جاتا رہا دلبر جو گھر آیا ہوا

    یک بیک جاتا رہا دلبر جو گھر آیا ہوا دوڑا دوڑا میں پھرا گلیوں میں گھبرایا ہوا جان کیا جلاد کی لیوے دوبارا حکم قتل منہ سے اس ظالم نے جو یکبار فرمایا ہوا ہجر میں اس گل کے یہ صورت ہماری بن گئی رنگ بھی ہے زرد اور چہرہ بھی مرجھایا ہوا خانۂ دل سے کریں غم یار کا کس طرح دور در سے اٹھتا ہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2