خفا ہم سے وہ بے سبب ہو گیا

خفا ہم سے وہ بے سبب ہو گیا
غضب ہو گیا ہے غضب ہو گیا


تصور میں زلف و رخ یار کے
مرا روز مانند شب ہو گیا


میں آگے تو دیوانہ اتنا نہ تھا
خدا جانے کیا مجھ کو اب ہو گیا


لب نازک اس کے جو یاد آ گئے
کئی بار میں جاں بہ لب ہو گیا


ترے غم میں سودا و خبط و جنوں
جو تھا مجھ کو منظور سب ہو گیا


یہ آئینہ رو دیکھے یاں منتظرؔ
کہ دل اپنا رشک حلب ہو گیا