Muntazir lakhnavi

منتظر لکھنوی

  • 1768 - 1803

منتظر لکھنوی کے تمام مواد

14 غزل (Ghazal)

    دل کسو سے تو کیا لگانا تھا

    دل کسو سے تو کیا لگانا تھا ہم کو منظور جی سے جانا تھا آستاں تھا وہ آستانۂ عشق کاٹ کر سر جہاں چڑھانا تھا دید کو تیرے آئے تھے ہم یاں زندگی کا فقط بہانہ تھا نکلے وہ آہ اپنے دشمن جاں ہم نے جن جن کو دوست جانا تھا جس زمانہ میں ہم ہوئے تھے خلق ہائے وو کیا برا زمانہ تھا کیوں دیا اس پری ...

    مزید پڑھیے

    اس شوخ کے انداز کو دیکھا تو غضب ہے

    اس شوخ کے انداز کو دیکھا تو غضب ہے اور اس کے سوا ناز کو دیکھا تو غضب ہے باتوں میں جو چھل لیوے ہے دل پیر و جواں کا اس طفل دعا بار کو دیکھا تو غضب ہے کیا کیا نہ کہا اس نے مجھے تیری طرف سے کافر ترے ہم راز کو دیکھا تو غضب ہے ہر چند کہ ہے طوطیٔ ہند ایک ہی خوش گو پر بلبل شیراز کو دیکھا تو ...

    مزید پڑھیے

    دیکھ کر یہ چلن تمہارے ہم

    دیکھ کر یہ چلن تمہارے ہم خاک میں مل گئے بے چارے ہم جن ہیں یا دیو بھوت ہیں کیا ہیں نہیں لگتے جو تم کو پیارے ہم بے قراری سے دل کی شب کو ہائے در پہ اس کے بہت پکارے ہم یہ جو گلزار سا ہے رخ تیرا لیں گے اس باغ کو اجارے ہم داغ اک تحفہ لے کے ہستی میں سوئے ملک عدم سدھارے ہم رات محفل میں ...

    مزید پڑھیے

    یار سے دست و گریباں نہ ہوا تھا سو ہوا

    یار سے دست و گریباں نہ ہوا تھا سو ہوا کبھی اتنا میں پشیماں نہ ہوا تھا سو ہوا واقعی جائے ندامت تو یہی ہے کہ کبھو مجھ سے جو کام عزیزاں نہ ہوا تھا سو ہوا تجھ کو دیکھے کوئی اور اس سے خفا ہونا ہائے کیا کروں اے دل ناداں نہ ہوا تھا سو ہوا کر کے نظارہ تن صاف کا اس کے ہیہات شکل آئینہ جو ...

    مزید پڑھیے

    عاشق زار ہوں دیوانہ ہوں

    عاشق زار ہوں دیوانہ ہوں میں بھی اک شمع کا پروانہ ہوں خانہ آباد جنوں کی دولت باعث رونق ویرانہ ہوں یاد رکھتا ہے مجھے کم کوئی میں دم خواب کا افسانہ ہوں اس سے ہر ایک کو اپنایت ہے کون کہتا ہے میں بیگانہ ہوں لوٹنا اشک کا میں سینہ پر جانتا بازیٔ طفلانہ ہوں منتظرؔ روز ازل سے میں ...

    مزید پڑھیے

تمام