Mumtaz Rashid

ممتاز راشد

ممتاز راشد کی غزل

    سیل خوں پیکر اشعار میں ڈھلتا ہی نہیں

    سیل خوں پیکر اشعار میں ڈھلتا ہی نہیں غم وہ لاوا ہے جو سینے سے ابلتا ہی نہیں آئنہ لاکھ مگر ایک سی تصویریں ہیں کس کو دیکھوں میں کوئی شکل بدلتا ہی نہیں جو بھٹکتا تھا کبھی دھوپ کے صحراؤں میں اب وہ سایہ مری چوکھٹ سے نکلتا ہی نہیں کوئی تحریر مٹائیں تو دھواں اٹھتا ہے دل وہ بھیگا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    خون احساس کو موجوں کی روانی سمجھے

    خون احساس کو موجوں کی روانی سمجھے اشک گل رنگ تھے وہ ہم جنہیں پانی سمجھے کون کرتا ہے خرابوں میں دفینوں کی تلاش کس کو فرصت ہے جو زخموں کے معانی سمجھے کیسے مٹ جاتی ہے آنکھوں سے وفا کی تحریر آج اڑتے ہوئے رنگوں کی زبانی سمجھے جب بھی دیکھا ہے اسے ہم نے نئے زخم ملے کون اس شخص کی تصویر ...

    مزید پڑھیے

    سکوں ملا ہے مگر اضطراب جیسا ہے

    سکوں ملا ہے مگر اضطراب جیسا ہے ترے بدن کا فسوں بھی شراب جیسا ہے ہنسے وہ لاکھ مگر ضبط غم کی تحریریں نہ چھپ سکیں گی کہ چہرہ کتاب جیسا ہے ملے گا پاس سے کچھ بھی نہ خاک و خوں کے سوا پلٹ چلیں کہ یہ منظر سراب جیسا ہے نہ کوئی پیڑ نہ سایہ نہ آہٹوں کا گماں یہ جستجو کا سفر بھی عذاب جیسا ...

    مزید پڑھیے

    دل کے جلتے ہوئے زخموں کا مداوا بن کر

    دل کے جلتے ہوئے زخموں کا مداوا بن کر پھول مہکے ہیں ترے ہاتھ کا سایہ بن کر میں ترے جسم کو چھوتے ہوئے یوں ڈرتا ہوں تشنگی اور بڑھا دے گا تو دریا بن کر کیا ڈرائیں گے مقدر کے اندھیرے تجھ کو میں چمکتا ہوں ترے ہاتھ پہ ریکھا بن کر وقت ہے برف کی دیوار تو کیسے پگھلے خوں بھی آنکھوں سے ...

    مزید پڑھیے

    کھو نہ جائے کہیں ہر خواب صداؤں کی طرح

    کھو نہ جائے کہیں ہر خواب صداؤں کی طرح زندگی محو تجسس ہے ہواؤں کی طرح ٹوٹ جائے نہ کہیں شیشۂ پیمان وفا وقت بے رحم ہے پتھر کے خداؤں کی طرح ہم سے بھی پوچھو سلگتے ہوئے موسم کی کسک ہم بھی ہر دشت پہ برسے ہیں گھٹاؤں کی طرح بارہا یہ ہوا جا کر ترے دروازے تک ہم پلٹ آئے ہیں ناکام دعاؤں کی ...

    مزید پڑھیے

    فضا میں بکھرے ہوئے رنگ جھلملاتے کیا

    فضا میں بکھرے ہوئے رنگ جھلملاتے کیا وہی ہوا تھی چراغوں کو پھر جلاتے کیا شکستہ جسم تھا سورج کا قہر جھیلے ہوئے برستے ابر کے چھینٹے ہمیں جگاتے کیا تمام دور کی لہریں تھیں خواب کی صورت بجا تھی پیاس سرابوں میں ڈوب جاتے کیا ہر ایک لمحہ تھا اپنے ہی عکس سے دھندلا گزرتے وقت کو ہم آئنہ ...

    مزید پڑھیے

    ہوئی نہ عکس رخ درد سے نجات مری

    ہوئی نہ عکس رخ درد سے نجات مری بدل چکی ہے کئی آئنے حیات مری کھلے تھے ہونٹ کہ وہ پاس سے گزر بھی گیا بکھر کے رہ گئی موج ہوا میں بات مری کبھی سکوت کبھی قہقہے کبھی آنسو بدلتی رہتی ہے ہر لمحہ کائنات مری چلو غموں کی کتابیں سپرد آب کریں وہ کہہ رہا ہے کہانی ہے بے ثبات مری سلگ رہی ہے ترے ...

    مزید پڑھیے

    تھکن کے ساتھ بڑھا حلقۂ نظر میرا

    تھکن کے ساتھ بڑھا حلقۂ نظر میرا ہوا نہ ختم کسی موڑ پر سفر میرا عبور کر لوں ابھی زندگی کا ویرانہ کھڑا ہوا ہے مگر راستے میں ڈر میرا بھٹک رہا ہوں میں حالات کے اندھیروں میں چمک رہا ہے ترے آنسوؤں سے گھر میرا ملا جو قرب تو روشن ہوئے سبھی خاکے ترس رہا تھا اسی آگ کو ہنر میرا خود اپنے ...

    مزید پڑھیے

    نہ فاصلوں میں خلش نہ راحت ہے قربتوں میں

    نہ فاصلوں میں خلش نہ راحت ہے قربتوں میں میں جی رہا ہوں عجیب بے رنگ ساعتوں میں تجھے غرض کیا کوئی بھی موضوع گفتگو ہو ہر اک حقیقت بدل چکی جب حکایتوں میں مری وفا کے سفر کی تکمیل ہو تو کیسے ہے تیرا محور تری ادھوری محبتوں میں کوئی تو میرے وجود کی سرحدیں بتائے بھٹک رہا ہوں میں کب سے ...

    مزید پڑھیے

    رنگ الفاظ کا الفاظ سے گہرا چاہوں

    رنگ الفاظ کا الفاظ سے گہرا چاہوں بات کرنے کے لیے اپنا ہی لہجہ چاہوں ہے تھکن ایسی مرا پار اترنا ہے محال تشنگی وہ ہے کہ بہتا ہوا دریا چاہوں کم نظر ہے جو کرے تیری ستائش محدود تو وہ شہکار ہے میں جس کو سراپا چاہوں تجھ پہ روشن مرے حالات کی زنجیریں ہیں روک لینا جو کبھی تجھ سے بچھڑنا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2