شب ہجر کوئی کہاں گیا
تجھے یاد ہے سبھی جاں بہ لب ترے راستوں میں کھڑے رہے کہ دم وداع تجھے دیکھ لیں کہیں جھولیاں تھیں کھلی ہوئی کہیں چشم چشم عجیب رنگوں کا رقص تھا کوئی خواب تھا کوئی عکس تھا تجھے یاد ہے تو بتا مجھے پس شام شہر ہوائے دہر کو کیا ہوا شب ہجر کوئی کہاں گیا میں اٹھا جو بستر خواب سے تو کوئی نہ تھا ...