Mumtaz Kanwal

ممتاز کنول

ممتاز کنول کی نظم

    شب ہجر کوئی کہاں گیا

    تجھے یاد ہے سبھی جاں بہ لب ترے راستوں میں کھڑے رہے کہ دم وداع تجھے دیکھ لیں کہیں جھولیاں تھیں کھلی ہوئی کہیں چشم چشم عجیب رنگوں کا رقص تھا کوئی خواب تھا کوئی عکس تھا تجھے یاد ہے تو بتا مجھے پس شام شہر ہوائے دہر کو کیا ہوا شب ہجر کوئی کہاں گیا میں اٹھا جو بستر خواب سے تو کوئی نہ تھا ...

    مزید پڑھیے

    ذات کے اسم کا معجزہ

    جب سے تجھ کو دیکھا ہے خواب کے وسیلے سے نیند کے جزیروں میں ہاتھ کی لکیروں میں جب سے تجھ کو چاہا ہے رات کی عبادت میں صبح کی دعاؤں میں دوریوں کی چھاؤں میں تب سے روح کے اندر سبز موسموں جیسی خواہشیں ہمکتی ہیں بارشیں برستی ہیں بجلیاں چمکتی ہیں گھنٹیاں سی بجتی ہیں

    مزید پڑھیے

    صبح کاذب میں ایک نظم

    یہ سوچ کے دکھ ہوگا کیوں رات گئے ہم نے دروازہ کھلا رکھا کس شخص کی چاہت میں آنکھوں کی منڈیروں پر اک دیپ جلا رکھا

    مزید پڑھیے