حسن فانی ہے جوانی کے فسانے تک ہے
حسن فانی ہے جوانی کے فسانے تک ہے پر یہ کمبخت محبت تو زمانے تک ہے وہ ملے گا تو شناسائی دلوں تک ہوگی اجنبیت تو فقط سامنے آنے تک ہے دشت میں پاؤں دھرا تھا کبھی وحشت کے بغیر اب وہی ریت مرے آئینہ خانے تک ہے شاعری پیروں فقیروں کا وظیفہ تھا کبھی اب تو یہ کام فقط نام کمانے تک ہے چاند ...