Mumtaz Gurmani

ممتاز گورمانی

ممتاز گورمانی کی غزل

    حسن فانی ہے جوانی کے فسانے تک ہے

    حسن فانی ہے جوانی کے فسانے تک ہے پر یہ کمبخت محبت تو زمانے تک ہے وہ ملے گا تو شناسائی دلوں تک ہوگی اجنبیت تو فقط سامنے آنے تک ہے دشت میں پاؤں دھرا تھا کبھی وحشت کے بغیر اب وہی ریت مرے آئینہ خانے تک ہے شاعری پیروں فقیروں کا وظیفہ تھا کبھی اب تو یہ کام فقط نام کمانے تک ہے چاند ...

    مزید پڑھیے

    فصیل دل میں در کیا کہ رابطہ بنا رہے

    فصیل دل میں در کیا کہ رابطہ بنا رہے اسے خدا کا گھر کیا کہ رابطہ بنا رہے زمیں پہ اپنے جسم کی تھکن بچھا کے سو گیا بھروسہ خاک پر کیا کہ رابطہ بنا رہے سبھی گھروں میں آپ ہی مقیم تھا اسی لیے مجھے بھی در بدر کیا کہ رابطہ بنا رہے وہ دشمنوں کی صف میں تھا اسی لیے کلام بھی کمان کھینچ کر کیا ...

    مزید پڑھیے

    میں کم سنی کے سبھی کھلونوں میں یوں بکھرتا جواں ہوا تھا

    میں کم سنی کے سبھی کھلونوں میں یوں بکھرتا جواں ہوا تھا دلا میں تیرے حسیں خیالوں سے ڈرتا ڈرتا جواں ہوا تھا مجھے ستاروں کی گردشوں سے ڈرائے گا کیا نصیب میرا کہ میں بگولوں کے ساتھ صحرا میں رقص کرتا جواں ہوا تھا بڑا تعجب ہے تیری آنکھوں کی اک تجلی سے جل گیا ہوں وگرنہ شعلوں کی آنکھ پر ...

    مزید پڑھیے

    نیندوں کو جب خواب میں جوتا جاتا تھا

    نیندوں کو جب خواب میں جوتا جاتا تھا میں بس اپنے نین بھگوتا جاتا تھا آنچل کا اک پھول شرارت کرتا تھا اک شہزادہ پتھر ہوتا جاتا تھا پھول دعائے نور سناتے تھے اور میں اس کی خاطر ہار پروتا جاتا تھا عشق میں ہم نے جتنے رنگ اپنائے تھے وحشی دھوبی سب کو دھوتا جاتا تھا پانی بھرنے ایک ...

    مزید پڑھیے

    قلم کی نوک پہ رکھوں گا اس جہان کو میں

    قلم کی نوک پہ رکھوں گا اس جہان کو میں زمیں لپیٹ کے رکھ دوں کہ آسمان کو میں عزیز جاں ہو جسے مجھ سے وہ گریز کرے کہ آج آیا ہوا ہوں خود اپنی جان کو میں ہے موج موج مخالف مرے سفینے کی اور اس پہ کھولنے والا ہوں بادبان کو میں فریب ذات سے باہر نکل کے دیکھ مجھے بتا رہا ہوں زمانے کی آن بان ...

    مزید پڑھیے

    اپنی ہر بات زمانے سے چھپانی پڑی تھی

    اپنی ہر بات زمانے سے چھپانی پڑی تھی پھر بھی جس آنکھ میں دیکھا تو کہانی پڑی تھی میں نے کچھ رنگ چرائے تھے کسی تتلی کے اور پھر عمر حفاظت میں بتانی پڑی تھی کل کسی عشق کے بیمار پہ دم کرنا تھا پیر کامل کو غزل میری سنانی پڑی تھی کوچۂ عشق سے ناکام پلٹنے والے تو نے دیکھا تھا وہاں میری ...

    مزید پڑھیے

    یہ اور بات شجر سرنگوں پڑا ہوا تھا

    یہ اور بات شجر سرنگوں پڑا ہوا تھا زمیں سے اس نے مگر رابطہ رکھا ہوا تھا وہیں وہیں سے گواہی ملی مرے سچ کی جہاں جہاں سے مرا پیرہن پھٹا ہوا تھا مجھے کسی کا تو ہونا تھا ہار جیت کے بعد مرا وجود وہاں داؤ پر لگا ہوا تھا مری نگاہ میں تھی سرخ محملوں کی قطار اور ان میں ایک کجاوہ بہت سجا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    ہم کہاں عظمت اسلاف سنبھالے ہوئے ہیں

    ہم کہاں عظمت اسلاف سنبھالے ہوئے ہیں بس ترے عشق سے ماتھے کو اجالے ہوئے ہیں قیس و فرہاد تئیں اپنے حوالے ہوئے ہیں یعنی ہم مسند عشاق سنبھالے ہوئے ہیں جب بھی پلٹے ہیں ہمیں ہار دکھائی دی ہے ہم نے سکے یہ کئی بار اچھالے ہوئے ہیں پیاس لگتی ہے انہیں دیکھ کے اے دشت نشیں تیری آنکھیں ہیں ...

    مزید پڑھیے

    اس کی آنکھوں پہ مان تھا ہی نہیں

    اس کی آنکھوں پہ مان تھا ہی نہیں خواب تھے خواب دان تھا ہی نہیں میں تعاقب میں چل پڑا جس کے دھول تھی کاروان تھا ہی نہیں دو زمیں زاد جس میں رہ سکتے اس قدر آسمان تھا ہی نہیں گر پڑا ہوں تو راستے نے کہا تیرا مجھ پر تو دھیان تھا ہی نہیں ایک خواہش تھی دو دلوں کے بیچ اور کچھ درمیان تھا ہی ...

    مزید پڑھیے

    میلے میں گر نظر نہ آتا روپ کسی متوالی کا

    میلے میں گر نظر نہ آتا روپ کسی متوالی کا پھیکا پھیکا رہ جاتا تہوار بھی اس دیوالی کا مایوں بیٹھے روپ سروپ کے روگ سے واقف لگتی ہے آنچل بھیگا جاتا ہے اس دولہن کی شہبالی کا برتن برتن چیخ رہی تھی کون سمجھتا اس کی بات دل کا برتن خالی تھا اس برتن بیچنے والی کا گال کی جانب جھکتی ہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2