پاس اپنے بوریا بستر نہ تھا
پاس اپنے بوریا بستر نہ تھا اتنا سرمایہ بھی اپنے گھر نہ تھا دشت جنگل سائبان و در نہ تھا میں ہی میں تھا اور کوئی منظر نہ تھا دائروں میں بھی نہ گزری زندگی خواہشوں کا بھی کوئی محور نہ تھا ایک زنجیر ہوس کار نشاط اور کوئی سلسلہ ہٹ کر نہ تھا قتل کرتا تھا مجھے وہ پے بہ پے اس کے ہاتھوں ...