Mukhtar Shameem

مختار شمیم

مختار شمیم کی غزل

    پاس اپنے بوریا بستر نہ تھا

    پاس اپنے بوریا بستر نہ تھا اتنا سرمایہ بھی اپنے گھر نہ تھا دشت جنگل سائبان و در نہ تھا میں ہی میں تھا اور کوئی منظر نہ تھا دائروں میں بھی نہ گزری زندگی خواہشوں کا بھی کوئی محور نہ تھا ایک زنجیر ہوس کار نشاط اور کوئی سلسلہ ہٹ کر نہ تھا قتل کرتا تھا مجھے وہ پے بہ پے اس کے ہاتھوں ...

    مزید پڑھیے

    دل لرز رہا ہے کیوں اس کے خط کو پا کر بھی

    دل لرز رہا ہے کیوں اس کے خط کو پا کر بھی حرف ہنس ہے ہیں کیوں رنگ رخ اڑا کر بھی تجھ سے دور رہ کر بھی دل گرفتہ رہتے تھے ایک عجیب الجھن ہے تیرے پاس آ کر بھی چہرے ہیں کہتے ہیں آئینے پشیماں ہیں ہے عجیب حیرانی بزم دل سجا کر بھی لفظ لفظ پھیلا تھا نقطہ نقطہ سمٹا ہوں کس قدر پشیماں ہوں ...

    مزید پڑھیے

    خود اپنے آپ کو دھوکا دیا ہے

    خود اپنے آپ کو دھوکا دیا ہے ہمارے ساتھ یہ اکثر ہوا ہے یہ مجھ سے زندگی جو مانگتا ہے نہ جانے کون یہ مجھ میں چھپا ہے یہی میری شکستوں کا صلا ہے کوئی میرے بدن میں ٹوٹتا ہے کتاب گل کا رنگیں ہر ورق ہے تمہارا نام کس نے لکھ دیا ہے صلیب وقت پہ تنہا کھڑا ہوں یہ سارا شہر مجھ پر ہنس رہا ...

    مزید پڑھیے

    سخن سخن جو کسی کرب سے عبارت تھا

    سخن سخن جو کسی کرب سے عبارت تھا میں لفظ لفظ خود اپنی ہی تو حکایت تھا خیال وہم کی صورت بھی کیا حقیقت تھا وہ دور دور تھا تو کتنا خوبصورت تھا ہر اک بنام محبت خلوص کی خاطر ہر ایک دوسرے کے واسطے مصیبت تھا وجود لفظ و معانی سکون جاں کہیے خود اپنی ذات میں ہر حرف اک اذیت تھا لپکتے شعلوں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2