Mukhtar Hashmi

مختار ہاشمی

مختار ہاشمی کی غزل

    غم جاناں میں سمو کر غم دوراں ہم نے

    غم جاناں میں سمو کر غم دوراں ہم نے دو فسانوں کو دیا ایک ہی عنواں ہم نے غم سے گھبرا کے جو کی کوشش درماں ہم نے اور بھی کانٹوں میں الجھا لیا داماں ہم نے دیکھیں کیا ہوتا ہے تجدید نشیمن کا سماں منتخب کی ہے پھر اک شاخ گلستاں ہم نے غم سے بچنے کے لئے وضع کئے تھے جو اصول کر دیئے نازکیٔ ...

    مزید پڑھیے

    سراب زیست میں سمٹا ہوا ہوں

    سراب زیست میں سمٹا ہوا ہوں سمندر ہوں مگر قطرہ نما ہوں خدا سے مل کے خود میں آ گیا ہوں اب آئینے کو سجدہ کر رہا ہوں تمہیں بھی دوست اپنا جانتا ہوں بڑی خوش فہمیوں میں مبتلا ہوں جنوں ہوں یا خرد کی انتہا ہوں نہ سمجھا آج تک خود بھی میں کیا ہوں حقیقت کو فسانہ کیسے کہہ دوں فسانے کو حقیقت ...

    مزید پڑھیے

    مجرم عشق طلب گار معافی تو نہیں

    مجرم عشق طلب گار معافی تو نہیں صرف غم چاہتا ہے غم کی تلافی تو نہیں سوچ لے یہ بھی ہر امید سے پہلے اے دل یہ سہارا تری غیرت کے منافی تو نہیں رونے والے یہ ندامت بھی غنیمت ہے مگر صرف دو اشک گناہوں کی تلافی تو نہیں ظرف میکش پہ نظر چاہئے ساقی تجھ کو ایک دو جام غنیمت سہی کافی تو ...

    مزید پڑھیے

    شب غم مختصر سی ہو گئی ہے

    شب غم مختصر سی ہو گئی ہے حیات اب معتبر سی ہو گئی ہے نئی راہیں نکلتی آ رہی ہیں یہ لغزش راہبر سی ہو گئی ہے وفا کی خو نہ جدت دشمنی میں یہ دنیا بے ہنر سی ہو گئی ہے مری بے چارگی کیا پوچھتے ہو وہ اب تو چارہ گر سی ہو گئی ہے جھکی رہنے لگی ہیں اب وہ نظریں فغاں کچھ کار گر سی ہو گئی ہے

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2