Mughni Tabassum

مغنی تبسم

ممتاز نقاد ، رسالہ ’شعر و حکمت‘ کے مدیر تھے

Prominent critic / Edited the literary magazine, Sher-o-Hikmat

مغنی تبسم کی غزل

    کیا کوئی درد دل کے مقابل نہیں رہا

    کیا کوئی درد دل کے مقابل نہیں رہا یا ایک دل بھی درد کے قابل نہیں رہا ان کے لہو کی دہر میں ارزانیاں نہ پوچھ جن کا گواہ دامن قاتل نہیں رہا اپنی تلاش ہے ہمیں آنکھوں کے شہر میں آئینہ جب سے اپنے مقابل نہیں رہا سرگرمی حیات ہے بے مقصد حیات سب رہ نورد شوق ہیں محمل نہیں رہا اس کا خیال ...

    مزید پڑھیے

    عذاب ہو گئی زنجیر دست و پا مجھ کو

    عذاب ہو گئی زنجیر دست و پا مجھ کو جو ہو سکے تو کہیں دار پہ چڑھا مجھ کو ترس گیا ہوں میں سورج کی روشنی کے لیے وہ دی ہے سایۂ دیوار نے سزا مجھ کو جو دیکھے تو اسی سے ہے زندگی میرے مگر مٹا بھی رہی ہے یہی ہوا مجھ کو اسی نظر نے مجھے توڑ کر بکھیر دیا اسی نظر نے بنایا تھا آئینہ مجھ کو سراب ...

    مزید پڑھیے

    میں ایک اندھے کنویں کا قیدی کسے ملوں گا (ردیف .. ی)

    میں ایک اندھے کنویں کا قیدی کسے ملوں گا کہاں مجھے ڈھونڈھنے چلی ہے نجات میری خجالت درگزر سے لب پر دعا نہ ٹھہری در سماعت سے لوٹ آئی ہے رات میری میں کس کے قول و قرار سے اپنے اشک پونچھوں مکر گئی ہے خود اپنے وعدوں سے ذات میری ہے تشنگی کا نیا ہی اک ذائقہ لبوں پر سراب اندر سراب گرداں ...

    مزید پڑھیے

    تپتے صحرا میں یہ خوشبو ساتھ کہاں سے آئی

    تپتے صحرا میں یہ خوشبو ساتھ کہاں سے آئی ذکر زمانے کا تھا تیری بات کہاں سے آئی جلتی دھوپ کے لشکر کے خیمے کس نے توڑ دیے جھلمل کرتے تاروں کی بارات کہاں سے آئی بیتے لمحے لوٹے بھی تو یاد بنے یا خواب پرچھائیں تھی پرچھائیں پھر بات کہاں سے آئی چاند ابھی تو نکلا ہی تھا کیسے ڈوب گیا میرے ...

    مزید پڑھیے

    گرنا نہیں ہے اور سنبھلنا نہیں ہے اب

    گرنا نہیں ہے اور سنبھلنا نہیں ہے اب بیٹھے ہیں رہ گزار پہ چلنا نہیں ہے اب پچھلا پہر ہے شب کا سویرے کی خیر ہو بجھتے ہوئے چراغ ہیں جلنا نہیں ہے اب ہے آستیں سے کام نہ دامن سے کچھ غرض پتھر بنے ہوئے ہیں پگھلنا نہیں ہے اب منظر ٹھہر گیا ہے کوئی دل میں آن کر دنیا کے ساتھ اس کو بدلنا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    صبحیں کیسی آگ لگانے والی تھیں

    صبحیں کیسی آگ لگانے والی تھیں شامیں کیسی دھواں اٹھانے والی تھیں کیسا اتھاہ سمندر تھا وہ خیالوں کا موجیں کتنا شور مچانے والی تھیں دروازے سب دل میں آ کر کھلتے تھے دیواریں چہروں کو دکھانے والی تھیں رستوں میں زندہ تھی آہٹ قدموں کی گلیاں کیا خوشبو مہکانے والی تھیں برساتیں ...

    مزید پڑھیے

    نگاہوں سے نکل کر جو گئے ہیں

    نگاہوں سے نکل کر جو گئے ہیں وہ چہرے آئنوں میں کھو گئے ہیں زمیں پر نور کی بارش تھی جن سے ستارے آسماں میں بو گئے ہیں کھلے تھے جو چمن میں گل کی صورت صبا کے ساتھ رخصت ہو گئے ہیں جلانے والے یادوں کے دیے اب چراغ جاں بجھا کر سو گئے ہیں

    مزید پڑھیے

    یوں لگتا ہے سب کچھ کھونے آیا تھا

    یوں لگتا ہے سب کچھ کھونے آیا تھا میں اس گھر میں تجھ کو رونے آیا تھا تو میرے ہم راہ تو آیا تھا لیکن تنہائی کے کانٹے بونے آیا تھا میں اس کے دیدار سے کب سیراب ہوا وہ تو بس دامن کو بھگونے آیا تھا میں تکتا تھا اس کو پیاسے ہونٹوں سے بادل میری ناؤ ڈبونے آیا تھا گہری نیند سے مجھ کو جگا ...

    مزید پڑھیے

    فضا میں نغمۂ آواز پا ہے میرے لیے

    فضا میں نغمۂ آواز پا ہے میرے لیے کراں سے تا بہ کراں اک ندا ہے میرے لیے میں اپنی ذات میں لوٹا تو پھر ملا نہ مجھے وہ ایک شخص جو روتا رہا ہے میرے لیے سبب ہے رنج کا کچھ خوئے اضطراب مری کچھ اپنے آپ سے بھی وہ خفا ہے میرے لیے فلک تمام ہے آغوش باب محرومی شجر شجر یہاں دست دعا ہے میرے ...

    مزید پڑھیے

    رنج گران شوق کا حاصل نہ کہہ اسے

    رنج گران شوق کا حاصل نہ کہہ اسے ترک سفر کیا ہے تو منزل نہ کہہ اسے یہ ضبط ضبط غم نہیں اک بے دلی سی ہے یہ دل حریف درد نہیں دل نہ کہہ اسے طغیانیاں کچھ اور ہیں موجوں میں ریت کی میں ڈوبتا ہوں عشرت ساحل نہ کہہ اسے مرتا نہیں ہوں موت کی بے حاصلی پہ میں جیتا اگر ہوں الفت حاصل نہ کہہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2