Mughni Tabassum

مغنی تبسم

ممتاز نقاد ، رسالہ ’شعر و حکمت‘ کے مدیر تھے

Prominent critic / Edited the literary magazine, Sher-o-Hikmat

مغنی تبسم کی نظم

    لفظوں کی دوکان میں

    کالی بلی نے یہ بھی نہیں سوچا کہ میں کسی نیند میں خلل ہو رہی ہوں اس کو تو چوہوں سے مطلب ہے اور یہ کم بخت اپنی بلوں میں چھپے کیوں نہیں رہتے ازل سے یہی ہو رہا ہے گھڑی نے شاید بارہ بجا دیے ہیں یہ خدا کے آرام کا وقت ہے اور وہ شب بے دار اسے سونے نہیں دیتے اپنے برتے پر گناہ کرتے تو دعاؤں کی ...

    مزید پڑھیے

    باز داشت

    رائیگاں وقت کے سناٹے میں ایک آواز تھی پیلی آواز کوئی دھڑکن تھی گزشتہ دل کی گربۂ شب کی چمکتی آنکھیں تاک میں تھیں کہ کہیں سے نکلے موش بے خواب کوئی بند آسیب زدہ دروازے آپ ہی آپ کھلے بند ہوئے حجرۂ تار میں جیسے کوئی روح بھٹکی ہوئی در آئی تھی روح کب تھی وہ نری خواہش تھی آگ تھی آگ پینے کی ...

    مزید پڑھیے

    سوال

    وہ کیسا ترے جسم کا خواب تھا کہ جس کے لہو میں شرارے اچھلتے رہے کب جلے اور بجھے خواب ہے وہ ہوا جو انہیں چھو گئی سانس بن کر ابھی موجزن ہے رگ و پے میں لیکن شرارے کہاں ہیں لہو بے سبب گھومتا ہے غلامانہ گردش ہے کولھو میں جکڑے ہوئے بیل کی جس کی آنکھوں پہ پٹی بندھی ہے ایک اندھا سفر ہے ازل تا ...

    مزید پڑھیے

    بے نشاں

    بات یوں ختم ہوئی درد یوں گیا جیسے کہ ساحل ہی نہ تھا سارے الطاف و کرم بھول گئے جور فراموش ہوئے رات یوں بیت گئی جیسے کہ نکلا ہی نہ تھا مطلع شوق پہ وہ ماہ تمام اشک یوں سوکھ گئے جیسے کہ دامن میرا اس کا آنچل تھا وہ پیمانۂ ناز جانے گردش میں ہے کہ ٹوٹ گیا میں زمانے کے کنارے یوں کھڑا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    مجھے یاد ہے

    مجھے یاد ہے تری گفتگو جو فضا میں تھی مجھے یاد ہے تری آرزو تری آرزو کے قریب ہی مری زندگی تھی کھڑی ہوئی مرے راستے میں ہر ایک سمت رکاوٹیں تھی اٹی ہوئی مجھے یاد ہے وہ انا بدست سوال بھی وہ خیال بھی کوئی حادثہ جو شریک ہو تو سفر کٹے کہ یہ دائرہ تو قفس ہے جس کا محیط مرگ دوام ہے مجھے زندگی ...

    مزید پڑھیے

    نارسی سس

    تصور کرو دن کے خوابوں کے برباد لمحوں کا جب سولی چڑھی اس کا سر آسماں پر تھا قدموں میں ساری زمیں ہاتھ پھیلے ہوئے منہ کھلا جیبھ باہر لٹکتی ہوئی مجھے کیا خبر تھی کہ یوں چاند تھک جائے گا تصور کرو اس گھڑی میں جہاں تھا وہاں میرا سایہ نہ تھا میں اسے ڈھونڈھتا سات رنگوں کے دریا کی جانب ...

    مزید پڑھیے

    رشتے

    میں کیا جانوں کون ہے سورج کس نگری کا باسی ہے کیسا سر چشمہ ہے جس سے جیون دھارا بہتی ہے میں کیا جانوں کون ہے بادل کیوں آوارہ پھرتا ہے کتنے پیڑ ہرے ہوتے ہیں کتنی کلیاں مرجھاتی ہیں ایک نگاہ لطف سے اس کی ،اس کے ایک تغافل سے میں کیا جانوں شب کے گہرے سناٹوں میں کتنے تارے ٹوٹ گئے ہیں کتنی ...

    مزید پڑھیے

    پہلی کرن کا بوجھ

    سگریٹ کا ایک لمبا کش اور کھانسی گھونٹ گھونٹ چائے پگھلتے خوابوں کے موم گدلے کاغذ پر دنیا کے اعمال کا پیلا زہر ہم کتنے اچھے تھے جب ہماری پیٹھ کے نیچے بستر تھا آؤ چلو آئینے سے پوچھیں ابھی کتنا سفر باقی ہے؟ اس کو تو ایک ہی جواب ہے اپنے چہروں کو برداشت کرو باہر نکلو تو ماسک لگانا مت ...

    مزید پڑھیے