Mughni Tabassum

مغنی تبسم

ممتاز نقاد ، رسالہ ’شعر و حکمت‘ کے مدیر تھے

Prominent critic / Edited the literary magazine, Sher-o-Hikmat

مغنی تبسم کے تمام مواد

14 غزل (Ghazal)

    کیا کوئی درد دل کے مقابل نہیں رہا

    کیا کوئی درد دل کے مقابل نہیں رہا یا ایک دل بھی درد کے قابل نہیں رہا ان کے لہو کی دہر میں ارزانیاں نہ پوچھ جن کا گواہ دامن قاتل نہیں رہا اپنی تلاش ہے ہمیں آنکھوں کے شہر میں آئینہ جب سے اپنے مقابل نہیں رہا سرگرمی حیات ہے بے مقصد حیات سب رہ نورد شوق ہیں محمل نہیں رہا اس کا خیال ...

    مزید پڑھیے

    عذاب ہو گئی زنجیر دست و پا مجھ کو

    عذاب ہو گئی زنجیر دست و پا مجھ کو جو ہو سکے تو کہیں دار پہ چڑھا مجھ کو ترس گیا ہوں میں سورج کی روشنی کے لیے وہ دی ہے سایۂ دیوار نے سزا مجھ کو جو دیکھے تو اسی سے ہے زندگی میرے مگر مٹا بھی رہی ہے یہی ہوا مجھ کو اسی نظر نے مجھے توڑ کر بکھیر دیا اسی نظر نے بنایا تھا آئینہ مجھ کو سراب ...

    مزید پڑھیے

    میں ایک اندھے کنویں کا قیدی کسے ملوں گا (ردیف .. ی)

    میں ایک اندھے کنویں کا قیدی کسے ملوں گا کہاں مجھے ڈھونڈھنے چلی ہے نجات میری خجالت درگزر سے لب پر دعا نہ ٹھہری در سماعت سے لوٹ آئی ہے رات میری میں کس کے قول و قرار سے اپنے اشک پونچھوں مکر گئی ہے خود اپنے وعدوں سے ذات میری ہے تشنگی کا نیا ہی اک ذائقہ لبوں پر سراب اندر سراب گرداں ...

    مزید پڑھیے

    تپتے صحرا میں یہ خوشبو ساتھ کہاں سے آئی

    تپتے صحرا میں یہ خوشبو ساتھ کہاں سے آئی ذکر زمانے کا تھا تیری بات کہاں سے آئی جلتی دھوپ کے لشکر کے خیمے کس نے توڑ دیے جھلمل کرتے تاروں کی بارات کہاں سے آئی بیتے لمحے لوٹے بھی تو یاد بنے یا خواب پرچھائیں تھی پرچھائیں پھر بات کہاں سے آئی چاند ابھی تو نکلا ہی تھا کیسے ڈوب گیا میرے ...

    مزید پڑھیے

    گرنا نہیں ہے اور سنبھلنا نہیں ہے اب

    گرنا نہیں ہے اور سنبھلنا نہیں ہے اب بیٹھے ہیں رہ گزار پہ چلنا نہیں ہے اب پچھلا پہر ہے شب کا سویرے کی خیر ہو بجھتے ہوئے چراغ ہیں جلنا نہیں ہے اب ہے آستیں سے کام نہ دامن سے کچھ غرض پتھر بنے ہوئے ہیں پگھلنا نہیں ہے اب منظر ٹھہر گیا ہے کوئی دل میں آن کر دنیا کے ساتھ اس کو بدلنا نہیں ...

    مزید پڑھیے

تمام

8 نظم (Nazm)

    لفظوں کی دوکان میں

    کالی بلی نے یہ بھی نہیں سوچا کہ میں کسی نیند میں خلل ہو رہی ہوں اس کو تو چوہوں سے مطلب ہے اور یہ کم بخت اپنی بلوں میں چھپے کیوں نہیں رہتے ازل سے یہی ہو رہا ہے گھڑی نے شاید بارہ بجا دیے ہیں یہ خدا کے آرام کا وقت ہے اور وہ شب بے دار اسے سونے نہیں دیتے اپنے برتے پر گناہ کرتے تو دعاؤں کی ...

    مزید پڑھیے

    باز داشت

    رائیگاں وقت کے سناٹے میں ایک آواز تھی پیلی آواز کوئی دھڑکن تھی گزشتہ دل کی گربۂ شب کی چمکتی آنکھیں تاک میں تھیں کہ کہیں سے نکلے موش بے خواب کوئی بند آسیب زدہ دروازے آپ ہی آپ کھلے بند ہوئے حجرۂ تار میں جیسے کوئی روح بھٹکی ہوئی در آئی تھی روح کب تھی وہ نری خواہش تھی آگ تھی آگ پینے کی ...

    مزید پڑھیے

    سوال

    وہ کیسا ترے جسم کا خواب تھا کہ جس کے لہو میں شرارے اچھلتے رہے کب جلے اور بجھے خواب ہے وہ ہوا جو انہیں چھو گئی سانس بن کر ابھی موجزن ہے رگ و پے میں لیکن شرارے کہاں ہیں لہو بے سبب گھومتا ہے غلامانہ گردش ہے کولھو میں جکڑے ہوئے بیل کی جس کی آنکھوں پہ پٹی بندھی ہے ایک اندھا سفر ہے ازل تا ...

    مزید پڑھیے

    بے نشاں

    بات یوں ختم ہوئی درد یوں گیا جیسے کہ ساحل ہی نہ تھا سارے الطاف و کرم بھول گئے جور فراموش ہوئے رات یوں بیت گئی جیسے کہ نکلا ہی نہ تھا مطلع شوق پہ وہ ماہ تمام اشک یوں سوکھ گئے جیسے کہ دامن میرا اس کا آنچل تھا وہ پیمانۂ ناز جانے گردش میں ہے کہ ٹوٹ گیا میں زمانے کے کنارے یوں کھڑا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    مجھے یاد ہے

    مجھے یاد ہے تری گفتگو جو فضا میں تھی مجھے یاد ہے تری آرزو تری آرزو کے قریب ہی مری زندگی تھی کھڑی ہوئی مرے راستے میں ہر ایک سمت رکاوٹیں تھی اٹی ہوئی مجھے یاد ہے وہ انا بدست سوال بھی وہ خیال بھی کوئی حادثہ جو شریک ہو تو سفر کٹے کہ یہ دائرہ تو قفس ہے جس کا محیط مرگ دوام ہے مجھے زندگی ...

    مزید پڑھیے

تمام