میں تو بیٹھا تھا ہر اک شے سے کنارا کر کے
میں تو بیٹھا تھا ہر اک شے سے کنارا کر کے وقت نے چھوڑ دیا دوست تمہارا کر کے بات دریا بھی کبھی رک کے کیا کرتا تھا اب تو ہر موج گزرتی ہے اشارا کر کے وہ عجب دشمن جاں تھا جو مجھے چھوڑ گیا میرے اندر ہی کہیں مجھ کو صف آرا کر کے اک دیا اور جلایا ہے سحر ہونے تک شب ہجراں ترے نام ایک ستارا کر ...