مبشر سعید کی غزل

    کب مری حلقۂ وحشت سے رہائی ہوئی ہے

    کب مری حلقۂ وحشت سے رہائی ہوئی ہے دل نے اک اور بھی زنجیر بنائی ہوئی ہے اور کیا ہے مرے دامن میں محبت کے سوا یہی دولت مری محنت سے کمائی ہوئی ہے عشق میں جرات تفریق نہیں قیس کو بھی تو نے کیوں دشت میں دیوار اٹھائی ہوئی ہے تیری صورت جو میں دیکھوں تو گماں ہوتا ہے تو کوئی نظم ہے جو وجد ...

    مزید پڑھیے

    انکار کی لذت سے نہ اقرار جنوں سے

    انکار کی لذت سے نہ اقرار جنوں سے یہ ہجر کھلا مجھ پہ کسی اور فسوں سے یہ جان چلی جائے مگر آنچ نہ آئے آداب محبت پہ کسی حرف جنوں سے عجلت میں نہیں ہوگی تلاوت ترے رخ کی آ بیٹھ مرے پاس ذرا دیر سکوں سے اے یار کوئی بول محبت سے بھرا بول کیا سمجھوں بھلا میں تری ہاں سے تری ہوں سے دیوار کا ...

    مزید پڑھیے

    عالم وجد سے اقرار میں آتا ہوا میں

    عالم وجد سے اقرار میں آتا ہوا میں قصۂ درد بنا خواب سناتا ہوا میں منصب دار پہ آیا ہوں بڑی شان کے ساتھ حاکم شہر ترے ہوش اڑاتا ہوا میں زندگی ہجر ہے اور ہجر بھی ایسا ہے کہ بس سانس تک ہار چکا وصل کماتا ہوا میں چاندنی رات میں دریا سی رواں یاد کے ساتھ کیف و مستی میں چلا جھومتا گاتا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    سجدۂ یاد میں سر اپنا جھکایا ہوا ہے

    سجدۂ یاد میں سر اپنا جھکایا ہوا ہے ہم نے عشاق کے رتبے کو بڑھایا ہوا ہے تہمتیں ہوں یا کہ پتھر ہوں مقدر اس کا ایک دیوانہ ترے شہر میں آیا ہوا ہے میرا مقصد تھا فقط خاک اڑانا صاحب اس لیے دشت کو گھر بار بنایا ہوا ہے شوکت مجلس ہجراں کو بڑھانا تھا سو یار میں نے پلکوں پہ ترا ہجر سجایا ...

    مزید پڑھیے

    پہلے وہ اچانک نظر آیا اسے دیکھا

    پہلے وہ اچانک نظر آیا اسے دیکھا پھر دل نے کیا اور تقاضا اسے دیکھا وہ حسن بڑی دیر رہا سامنے میرے پھر میں نے میاں جس طرح چاہا اسے دیکھا وہ پل تو مری آنکھ سے جاتا ہی نہیں ہے اک روز دریچے سے میں جھانکا اسے دیکھا وہ حسن کے معیار پہ پورا تھا بہر طور دیکھا ہی نہیں کوئی بھی جیسا اسے ...

    مزید پڑھیے

    حالت حال میں کیا رو کے سناؤں تجھ کو

    حالت حال میں کیا رو کے سناؤں تجھ کو تو نظر آئے تو پلکوں پہ بٹھاؤں تجھ کو خود کو اس ہوش میں مدہوش بنانے کے لیے آیت حسن پڑھوں دیکھتا جاؤں تجھ کو تو نہیں مانتا مٹی کا دھواں ہو جانا تو ابھی رقص کروں ہو کے دکھاؤں تجھ کو کر لیا ایک محبت پہ گزارا میں نے چاہتا تھا کہ میں پورا بھی تو آؤں ...

    مزید پڑھیے

    خواب زدہ ویرانوں تک

    خواب زدہ ویرانوں تک پہنچی نیند ٹھکانوں تک آوازوں کے دریا میں غرق ہوئے ہم شانوں تک باغ اثاثہ ہے اپنا وہ بھی زرد زمانوں تک بنچ پہ پھیلی خاموشی پہنچی پیڑ کے کانوں تک عشق عبادت کرتے لوگ جاگیں روز اذانوں تک کرنیں ملنے آتی ہیں گھر کے روشن دانوں تک زرد اداسی چھائی ہے کھیتوں سے ...

    مزید پڑھیے

    گریہ زاری بھی کروں شور مچاؤں میں بھی

    گریہ زاری بھی کروں شور مچاؤں میں بھی حالت حال پرندوں کو سناؤں میں بھی زندگی روز نیا روپ دکھاتی ہے مجھے عرصۂ جسم کبھی چھوڑ کے جاؤں میں بھی حضرت قیس اگر آپ اجازت دے دیں کبھی وحشت کے لیے دشت میں آؤں میں بھی سارے ماحول کو دے دوں کسی تعبیر کا وجد اپنی مستی میں کوئی خواب سناؤں میں ...

    مزید پڑھیے

    خواب سننے سے گئے عشق بتانے سے گئے

    خواب سننے سے گئے عشق بتانے سے گئے زندگی ہم تری توقیر بڑھانے سے گئے گھر کے آنگن میں لگا پیڑ کٹا ہے جب سے ہم تری بات پرندوں کو سنانے سے گئے جز تجھے دیکھنے کے اور نہیں تھا کوئی کام یہ الگ بات کسی اور بہانے سے گئے جب سے وحشت نے نئی شکل نکالی اپنی ہم جنوں زاد کسی دشت میں جانے سے ...

    مزید پڑھیے

    عشق کرتا کہ ترے ہجر سے نفرت کرتا

    عشق کرتا کہ ترے ہجر سے نفرت کرتا بول کس آس پہ میں تیری حمایت کرتا زندگی روز نیا روپ دکھاتی مجھ کو اور میں ہنس کے اسے خواب ودیعت کرتا میں کہ اک اسم محبت ہوں فلک سے اترا میں ترے ورد میں رہتا تو کرامت کرتا دشت کے پار نیا دشت بساتا دل کا پھر ترے ہجر میں دل کھول کے وحشت کرتا حلقۂ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2