Mona Shahab

مونا شہاب

مونا شہاب کی غزل

    آرزو تھی تو اضطراب بھی تھا

    آرزو تھی تو اضطراب بھی تھا نیند گہری تھی اور خواب بھی تھا اک بگولا تھا ریت کا پیچھے دشت میں سامنے سراب بھی تھا میری قسمت کے سرد ہاتھوں میں میرے حصے کا کچھ عذاب بھی تھا ہم سفر اس سفر میں تو ہی بتا کیا سوالوں کا کچھ جواب بھی تھا بزم میں لٹ رہے تھے مینا و جام اور عادت کا وہ خراب ...

    مزید پڑھیے

    دن ڈھلے گھر سے نکلتے ہو کوئی بات تو ہے

    دن ڈھلے گھر سے نکلتے ہو کوئی بات تو ہے تم جو سڑکوں پہ ٹہلتے ہو کوئی بات تو ہے میں بھی بالوں میں سجا لیتی ہوں ہر شام گلاب تم بھی خوشبو سے بہلتے ہو کوئی بات تو ہے دن میں رہتے ہو مگن اپنے خیالوں میں کہیں شب گئے نیند میں چلتے ہو کوئی بات تو ہے باتوں باتوں میں پکڑ کے جو کبھی ہاتھ ...

    مزید پڑھیے

    ترک الفت تو اک بہانہ تھا

    ترک الفت تو اک بہانہ تھا وہ گیا خیر اس کو جانا تھا ہم بھی رستے میں تھک گئے تھے بہت اس کو بھی ساتھ کب نبھانا تھا رخ پہ تازہ گلاب کیا کھلتے زرد پتوں کا وہ زمانہ تھا نام لکھا تھا جو ہتھیلی پر کتنا مشکل اسے مٹانا تھا تم نے شعلہ بنا دیا مجھ کو کیا مرا ظرف آزمانا تھا دل کے لٹنے پہ ...

    مزید پڑھیے