دن ڈھلے گھر سے نکلتے ہو کوئی بات تو ہے

دن ڈھلے گھر سے نکلتے ہو کوئی بات تو ہے
تم جو سڑکوں پہ ٹہلتے ہو کوئی بات تو ہے


میں بھی بالوں میں سجا لیتی ہوں ہر شام گلاب
تم بھی خوشبو سے بہلتے ہو کوئی بات تو ہے


دن میں رہتے ہو مگن اپنے خیالوں میں کہیں
شب گئے نیند میں چلتے ہو کوئی بات تو ہے


باتوں باتوں میں پکڑ کے جو کبھی ہاتھ مرا
بے سبب بات بدلتے ہو کوئی بات تو ہے


سرد راتوں میں کھلی چھت پہ ستاروں کے تلے
موم کی طرح پگھلتے ہو کوئی بات تو ہے


جس طرف چلتی ہے موسم کو لیے نرم ہوا
تم اسی سمت میں چلتے ہو کوئی بات تو ہے


نہ بتاؤ تو کوئی بات نہیں ہے لیکن
تم کسی آگ میں جلتے ہو کوئی بات تو ہے