آرزو تھی تو اضطراب بھی تھا
آرزو تھی تو اضطراب بھی تھا
نیند گہری تھی اور خواب بھی تھا
اک بگولا تھا ریت کا پیچھے
دشت میں سامنے سراب بھی تھا
میری قسمت کے سرد ہاتھوں میں
میرے حصے کا کچھ عذاب بھی تھا
ہم سفر اس سفر میں تو ہی بتا
کیا سوالوں کا کچھ جواب بھی تھا
بزم میں لٹ رہے تھے مینا و جام
اور عادت کا وہ خراب بھی تھا
ساری دنیا کا انتخاب تھا وہ
اور وہ میرا انتخاب بھی تھا
تھا کبھی وقت جب ہمارا دل
اک مہکتا ہوا گلاب بھی تھا
کھوئی کھوئی سی اس کی آنکھوں میں
مجھ کو پانے کا اک خواب بھی تھا
زندگی تھی کھلی کتاب مری
اور وہ صاحب کتاب بھی تھا