ڈرتا ہوں عرض حال سے دھوکا نہ ہو کہیں
ڈرتا ہوں عرض حال سے دھوکا نہ ہو کہیں وہ روٹھ جائیں اور بھی ایسا نہ ہو کہیں کب تک تلاش دل کی کروں اور کہاں کہاں زلفوں میں دیکھ لیجئے الجھا نہ ہو کہیں قاصد مرے مکاں کی طرف سے گیا جو آج ہوتا ہے شک مجھے کہ بلایا نہ ہو کہیں ہو جائے جل کے خاک نہ خود یہ مرا وجود ڈرتا ہوں آہ کا اثر الٹا ...