Mohammad Usmaan Arif

محمد عثمان عارف

  • 1923

محمد عثمان عارف کی غزل

    کمال عشق میں سوز نہاں باقی نہیں رہتا

    کمال عشق میں سوز نہاں باقی نہیں رہتا بھڑک جاتے ہیں جب شعلے دھواں باقی نہیں رہتا جبیں تو پھر جبیں ہے آستاں باقی نہیں رہتا جہاں تم ہو کسی کا بھی نشاں باقی نہیں رہتا تمہیں دیکھوں تو کیا دیکھوں تمہیں سمجھوں کو کیا سمجھوں محبت میں تو اپنا بھی گماں باقی نہیں رہتا انہیں سے پوچھئے یہ ...

    مزید پڑھیے

    کانٹوں پہ چل رہا ہوں محبت کی راہ میں

    کانٹوں پہ چل رہا ہوں محبت کی راہ میں کس حسن کی بہار ہے میری نگاہ میں دنیا گناہ گار ہے تیری نگاہ میں زاہد ہے تیرا زعم بھی داخل گناہ میں ذروں میں کیا نہیں ہے جو ہے مہر و ماہ میں پستی نگاہ میں ہے بلندی نگاہ میں دیوانگان عشق کو دنیا کی کیا خبر دنیا کو چھوڑ آئے کہیں گرد راہ میں ہر ...

    مزید پڑھیے

    مجھ پر تری نظروں کا جو احساں نہیں ہوتا

    مجھ پر تری نظروں کا جو احساں نہیں ہوتا ہاتھوں سے مرے چاک گریباں نہیں ہوتا خالی کبھی کانٹوں سے گلستاں نہیں ہوتا کانٹوں سے کبھی پھول پریشاں نہیں ہوتا کچھ درد ہو کچھ سوز ہو کچھ نور ہو دل میں بس خاک کا پتلا ہی تو انساں نہیں ہوتا اے دوست سمجھتا ہوں تری پرسش غم کو باتوں سے کبھی درد ...

    مزید پڑھیے

    دیکھا تھا کس نظر سے تم نے ہنسی ہنسی میں

    دیکھا تھا کس نظر سے تم نے ہنسی ہنسی میں اک درد مستقل ہے اب میری زندگی میں کعبہ بھی بت کدہ بھی ہے راہ بندگی میں یہ منزلیں ہیں کیسی دشوار عاشقی میں اے دوست یاد ان کی اب تک رلا رہی ہے دو دن جو مل گئے تھے ہنسنے کو زندگی میں اک بات پر ہماری الجھن میں پڑ گئے تم دنیا نہ جانے کیا کیا کرتی ...

    مزید پڑھیے

    حسن کی جتنی بڑھیں رعنائیاں

    حسن کی جتنی بڑھیں رعنائیاں عشق کے سر ہو گئیں رسوائیاں اس نگاہ ناز کا عالم نہ پوچھ چھو گئی جو قلب کی گہرائیاں وہ حریم ناز میں بے چین ہیں یاد آتی ہیں مری تنہائیاں ان حسیں آنکھوں میں آنسو آ گئے آہ میرے عشق کی رسوائیاں محفل دنیا کو ٹھکرا دوں مگر جلوہ فرما ہیں تری رعنائیاں حسن کے ...

    مزید پڑھیے

    باقی ہے وہی شوخئ گفتار ابھی تک

    باقی ہے وہی شوخئ گفتار ابھی تک دیوانے پہنچتے ہیں سر دار ابھی تک سر پر ہے بہاروں کے مرے خون کا صحرا آلودہ لہو سے ہیں گل و خار ابھی تک آزادئ کامل کے تصور میں ہے انساں اپنے ہی خیالوں میں گرفتار ابھی تک گاتے ہیں اخوت کے ترانے تو شب و روز بربادئ عالم کو ہیں تیار ابھی تک بیگانہ بنے ...

    مزید پڑھیے

    حسن و الفت ساتھ ہیں آغاز سے انجام تک

    حسن و الفت ساتھ ہیں آغاز سے انجام تک میرا افسانہ سنا جائے گا تیرے نام تک زندگی کی تلخیاں ہیں گردش ایام تک لالہ و گل کا تبسم ہے چمن میں شام تک کیا خبر پردہ بہ پردہ کتنے جلوے ہیں نہاں چشم ظاہر بیں نے دیکھا ان کو حسن عام تک جن کے پیمانے بھرے ہیں ان پہ کیا تیرا کرم لطف تو ساقی ہے جب ...

    مزید پڑھیے

    تصور میں یہ کون آیا زباں پر کس کا نام آیا

    تصور میں یہ کون آیا زباں پر کس کا نام آیا نشاط روح کا ہر اک نفس لے کر پیام آیا وفور بے خودی میں ایک ایسا بھی مقام آیا نہ دنیا میرے کام آئی نہ میں دنیا کے کام آیا عقیدت سے جبیں جھک جھک گئی راہ محبت میں جہاں ان کا خیال آیا جہاں ان کا مقام آیا زمانہ کو تو دنیا بھر کی خوشیاں بخش دیں ...

    مزید پڑھیے

    بحر ہستی سے بھی جی گھبرا گیا

    بحر ہستی سے بھی جی گھبرا گیا بے کسی بس اب کنارا آ گیا کم ہوا کرتے ہیں ایسے خوش نصیب تجھ پہ مر کر جن کو جینا آ گیا میرا مٹ جانا تماشا تھا کوئی آپ سے یہ کس طرح دیکھا گیا دکھ برے دل کی کہانی کچھ نہ پوچھ پھول کے ہنسنے پہ رونا آ گیا صبح کرنا شام غم کا الاماں شمع کو دانتوں پسینہ آ ...

    مزید پڑھیے

    ہجر کی بے تابیاں تھیں حسرتوں کا جوش تھا

    ہجر کی بے تابیاں تھیں حسرتوں کا جوش تھا حسن کا آغوش پھر بھی حسن کا آغوش تھا ہم تو جس محفل میں بیٹھے شغل ناؤ نوش تھا زندگی میں موت بھی آئے گی کس کو ہوش تھا ضبط کرتے کرتے آخر پھوٹ نکلی دل کی بات ہنس پڑا گلشن میں جو بھی غنچۂ خاموش تھا احترام حسن کہئے یا اسے رعب جمال ان کا پردے سے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2