Mohammad Mustahsan Jami

محمد مستحسن جامی

محمد مستحسن جامی کی غزل

    دریاؤں کو حال سنا کر رقص کیا

    دریاؤں کو حال سنا کر رقص کیا صحراؤں کی خاک اڑا کر رقص کیا قیس تمہاری سنت ایسے زندہ کی ہاتھوں میں کشکول اٹھا کر رقص کیا قیس مجھے اس بات پہ حیرت ہوتی ہے تو نے کیسے دشت میں جا کر رقص کیا ان لوگوں کی حالت دیکھنے والی تھی جن لوگوں نے وجد میں آ کر رقص کیا جب میری آواز نہ کانوں تک ...

    مزید پڑھیے

    اب سوچ رہے ہیں یہاں کیا کیا نہیں دیکھا

    اب سوچ رہے ہیں یہاں کیا کیا نہیں دیکھا نکلے جو تری سمت تو رستہ نہیں دیکھا تو نے کبھی آنکھوں سے بہائے نہیں آنسو تو نے کبھی دریاؤں کو بہتا نہیں دیکھا پھر یوں ہے کہ سورج کو نہیں جانتا وہ شخص جس نے مرے آنگن کا اندھیرا نہیں دیکھا کرتے ہیں بہت بات یہ ویرانئ دل کی ان لوگوں نے شاید مرا ...

    مزید پڑھیے

    رنگ و صفات یار میں دل ڈھل نہیں رہا

    رنگ و صفات یار میں دل ڈھل نہیں رہا شعلوں کی زد میں پھول ہے اور جل نہیں رہا وہ دھوپ ہے کہ پیڑ بھی جلنے پہ آ گیا وہ بھوک ہے کہ شاخ پہ اب پھل نہیں رہا لے آؤ میری آنکھ کی لو کے قریب اسے تم سے بجھا چراغ اگر جل نہیں رہا ہم لوگ اب زمان و زمانہ سے دور ہیں یعنی یہاں پہ وقت بھی اب چل نہیں ...

    مزید پڑھیے

    معلوم نہیں کون سی بستی کے مکیں تھے

    معلوم نہیں کون سی بستی کے مکیں تھے کچھ لوگ مری سوچ سے بھی بڑھ کے حسیں تھے اب مجھ کو وہ اک پل بھی میسر نہیں ہوتے ارباب جو مسند پہ یہیں تخت نشیں تھے یہ بات عجب ہے کہ ہمارا نہ ہوا تو کیا ہم نہ ترے عہد کے تابندہ نگیں تھے افسوس اسے پریم کا اک لفظ نہیں یاد قصے مری چاہت کے جسے ذہن نشیں ...

    مزید پڑھیے

    کھیت ایسے سیراب نہیں ہوتے بھائی

    کھیت ایسے سیراب نہیں ہوتے بھائی اشکوں کے سیلاب نہیں ہوتے بھائی ہم جیسوں کی نیند تھکاوٹ ہوتی ہے ہم جیسوں کے خواب نہیں ہوتے بھائی زندہ لوگ ہی ڈوب سکیں گے آنکھوں میں مرے ہوئے غرقاب نہیں ہوتے بھائی اب سورج کی ساری دنیا دشمن ہے اب چہرے مہتاب نہیں ہوتے بھائی ان جھیلوں میں پریاں ...

    مزید پڑھیے

    رنگوں کی پہچان نہیں کر سکتا تھا

    رنگوں کی پہچان نہیں کر سکتا تھا تجھ جیسا انسان نہیں کر سکتا تھا میں نے اتنے کام کئے ہیں فرصت میں پورا پاکستان نہیں کر سکتا تھا ایک فقیر کی آہ نے وہ بھی کر ڈالا جو شاہی فرمان نہیں کر سکتا تھا اشکوں سے شاداب رہیں تیری آنکھیں میں جن کو ویران نہیں کر سکتا تھا اپنا آپ بتا سکتا تھا ...

    مزید پڑھیے

    روکھی سوکھی کھا سکتے تھے

    روکھی سوکھی کھا سکتے تھے تیرا ساتھ نبھا سکتے تھے کاٹ کے جڑ اک دوجے کی ہم کتنے پھول اگا سکتے تھے ہم تلوار اٹھا نہیں پائے ہم آواز اٹھا سکتے تھے غربت کا احسان تھا ہم پر اک تھالی میں کھا سکتے تھے تم تعبیر خدا سے مانگو ہم بس خواب دکھا سکتے تھے ہم کو رونا آ جاتا تو ہم بھی شور مچا ...

    مزید پڑھیے