معلوم نہیں کون سی بستی کے مکیں تھے

معلوم نہیں کون سی بستی کے مکیں تھے
کچھ لوگ مری سوچ سے بھی بڑھ کے حسیں تھے


اب مجھ کو وہ اک پل بھی میسر نہیں ہوتے
ارباب جو مسند پہ یہیں تخت نشیں تھے


یہ بات عجب ہے کہ ہمارا نہ ہوا تو
کیا ہم نہ ترے عہد کے تابندہ نگیں تھے


افسوس اسے پریم کا اک لفظ نہیں یاد
قصے مری چاہت کے جسے ذہن نشیں تھے


اب بھول چکے اپنے خد و خال تو کیا ہے
ہم لوگ کسی دور میں حد درجہ ذہیں تھے


پڑھتا ہوں بہت شوق سے پرکھوں کے فسانے
مفلس تھے مگر گاؤں کی عزت کے امیں تھے