Mohammad Mustahsan Jami

محمد مستحسن جامی

محمد مستحسن جامی کے تمام مواد

7 غزل (Ghazal)

    دریاؤں کو حال سنا کر رقص کیا

    دریاؤں کو حال سنا کر رقص کیا صحراؤں کی خاک اڑا کر رقص کیا قیس تمہاری سنت ایسے زندہ کی ہاتھوں میں کشکول اٹھا کر رقص کیا قیس مجھے اس بات پہ حیرت ہوتی ہے تو نے کیسے دشت میں جا کر رقص کیا ان لوگوں کی حالت دیکھنے والی تھی جن لوگوں نے وجد میں آ کر رقص کیا جب میری آواز نہ کانوں تک ...

    مزید پڑھیے

    اب سوچ رہے ہیں یہاں کیا کیا نہیں دیکھا

    اب سوچ رہے ہیں یہاں کیا کیا نہیں دیکھا نکلے جو تری سمت تو رستہ نہیں دیکھا تو نے کبھی آنکھوں سے بہائے نہیں آنسو تو نے کبھی دریاؤں کو بہتا نہیں دیکھا پھر یوں ہے کہ سورج کو نہیں جانتا وہ شخص جس نے مرے آنگن کا اندھیرا نہیں دیکھا کرتے ہیں بہت بات یہ ویرانئ دل کی ان لوگوں نے شاید مرا ...

    مزید پڑھیے

    رنگ و صفات یار میں دل ڈھل نہیں رہا

    رنگ و صفات یار میں دل ڈھل نہیں رہا شعلوں کی زد میں پھول ہے اور جل نہیں رہا وہ دھوپ ہے کہ پیڑ بھی جلنے پہ آ گیا وہ بھوک ہے کہ شاخ پہ اب پھل نہیں رہا لے آؤ میری آنکھ کی لو کے قریب اسے تم سے بجھا چراغ اگر جل نہیں رہا ہم لوگ اب زمان و زمانہ سے دور ہیں یعنی یہاں پہ وقت بھی اب چل نہیں ...

    مزید پڑھیے

    معلوم نہیں کون سی بستی کے مکیں تھے

    معلوم نہیں کون سی بستی کے مکیں تھے کچھ لوگ مری سوچ سے بھی بڑھ کے حسیں تھے اب مجھ کو وہ اک پل بھی میسر نہیں ہوتے ارباب جو مسند پہ یہیں تخت نشیں تھے یہ بات عجب ہے کہ ہمارا نہ ہوا تو کیا ہم نہ ترے عہد کے تابندہ نگیں تھے افسوس اسے پریم کا اک لفظ نہیں یاد قصے مری چاہت کے جسے ذہن نشیں ...

    مزید پڑھیے

    کھیت ایسے سیراب نہیں ہوتے بھائی

    کھیت ایسے سیراب نہیں ہوتے بھائی اشکوں کے سیلاب نہیں ہوتے بھائی ہم جیسوں کی نیند تھکاوٹ ہوتی ہے ہم جیسوں کے خواب نہیں ہوتے بھائی زندہ لوگ ہی ڈوب سکیں گے آنکھوں میں مرے ہوئے غرقاب نہیں ہوتے بھائی اب سورج کی ساری دنیا دشمن ہے اب چہرے مہتاب نہیں ہوتے بھائی ان جھیلوں میں پریاں ...

    مزید پڑھیے

تمام