Mohammad Mubashshir Mayo

محمد مبشر میو

  • 1993

محمد مبشر میو کی غزل

    کسی کی خوش رنگ گفتگو کی مٹھاس شعروں میں ڈھل گئی ہے

    کسی کی خوش رنگ گفتگو کی مٹھاس شعروں میں ڈھل گئی ہے ہماری آنکھوں کے خواب داں سے تمہاری صورت نکل گئی ہے ہمارا کیا ہے ہماری سوچوں کو نوچ کھائیں گے یہ پرندے ہماری چوپال کے شجر کو غلام دیمک نگل گئی ہے کوئی بتاؤ کہ اہل فن کے ضمیر مردہ ہوئے ہیں کب سے کہ اس گلی کے غریب بچوں کے ساتھ غربت ...

    مزید پڑھیے

    جو مجھ کو دکھایا گیا تاریک زیادہ

    جو مجھ کو دکھایا گیا تاریک زیادہ رہتا ہوں اسی خواب کے نزدیک زیادہ یہ پہنچے ہوئے لوگ بہت پہنچے ہیں شاید لیتے ہیں یہ اوروں سے ذرا بھیک زیادہ اے چشم غریباں یوں پریشاں نہ ہوا کر تو پہلے ہی رہتی نہیں کچھ ٹھیک زیادہ میں خواب میں بھی خواب نہ دیکھوں گا کسی کے اس کار اذیت میں ہے تضحیک ...

    مزید پڑھیے

    جو پورے ہونے سے رہ گئے تھے وہ خواب رکھے ہوئے ہیں گھر میں

    جو پورے ہونے سے رہ گئے تھے وہ خواب رکھے ہوئے ہیں گھر میں یقین مانو پرانی رت کے گلاب رکھے ہوئے ہیں گھر میں تمہارے لفظوں کی دھیمی خوشبو حواس خمسہ کو نوچتی ہے خطوں کی صورت میں سچ کہوں تو عذاب رکھے ہوئے ہیں گھر میں وصال لمحوں کا گوشوارہ الگ سے لکھا ہے ڈایری میں الگ سے فرقت کی بے بسی ...

    مزید پڑھیے

    تو علم والا ہے اتنا تو جانتا ہوگا

    تو علم والا ہے اتنا تو جانتا ہوگا ہم اچھے لوگ برے بن گئے تو کیا ہوگا میں اس یقین پہ تا عمر جینے والا ہوں جہاں پہ کچھ نہ ملے گا وہاں خدا ہوگا تو میرے سارے رقیبوں کے نام جانتی ہے تجھے تو میری محبت کا بھی پتا ہوگا یہ جتنی تیزی سے دور جدید آ رہا ہے ہوا کے ہاتھ میں بھی ایک دن دیا ...

    مزید پڑھیے

    اسی لیے تجھے دیتا ہوں داد نفرت کی

    اسی لیے تجھے دیتا ہوں داد نفرت کی کہ تو نے عشق سے پر اعتماد نفرت کی کوئی نہ دل سے کسی کو نکال کر پھینکے کبھی نہ پوری ہو مولا مراد نفرت کی کبھی کبھی وہ مجھے پیار اتنا دیتا تھا کبھی کبھی بہت آتی تھی یاد نفرت کی گلاب سوکھ گئے ہیں ہوئے ہیں خار ہرے ہوس نے پیار میں ڈالی ہے کھاد نفرت ...

    مزید پڑھیے