بند آنکھوں سے پرے

راحیل کو زِندگی میں پہلی مرتبہ اَپنی بے بسی پر ترس آیا۔
کل شام تک وہ اَپنی قسمت پر نازاں تھا۔
کون سی نعمت تھی‘ جو اس کا مقدّر نہ ٹھہری تھی۔
یہ جو تتلی جیسی بچی نایاب اور پھولوں جیسے دو بچے نبیل اور فرخ پھلواڑی میں کھیل رہے ہیں‘ راحیل ہی کے بچے ہیں۔
کل تک وہ انہیں دیکھتا تھا تو روح میں تازگی پاتا تھا‘ خُون کی حدت تیز ہو جاتی تھی اور آنکھوں میں محبت ا ور وارفتگی کی چمک اُتر آتی تھی۔
کہ کل کا ہر سمے یقین کا سمے تھا۔
مگر اب یقین کے سمے کی ڈوری اس کے ہاتھ سے سرک چکی تھی۔ اسے یوں لگنے لگا‘ جیسے اس کی روح تشکیک‘ تذبذب اور بے قراری کی سولی پر لٹکی ہوئی ہو۔
کیا وہ سب لمحے اِلتباس تھے جو اُنہوں نے ایک دوسرے میں گم ہو کر گزارے تھے؟
اُسے یقین نہیں آ رہا تھا۔۔۔
یقین کے لیے وجہ کی ٹھوس زمین چاہئے جس پربے دھڑک قدم رکھے جا سکیں۔ وہ تو اندیشوں کے آوارہ بادلوں میں یونہی ڈول رہا تھا۔۔۔ ’’ہاں‘‘ اور ’’نہ‘‘ کی صلیب پر لٹکا‘ من کے سمندر میں تیر رہا تھا۔۔۔ اور موج در موج اُٹھتی لہریں‘ جن کا رُخ کبھی باہر کی جانب تھا‘ بالکل ایسے ہی جیسے چودھویں رات ساری موجیں کناروں کو لپکتی ہیں‘ وہ آج اس کے باطن میں اندر بہت گہرائی میں گرتی چلی جاتی تھیں۔
وہ سن روم میں بیٹھاتھا۔ یوں جیسے اس کا وجود بالکل خالی ہو چکا ہو۔ ایسے میں اس کی نظریں اوپر اٹھیں اور ادھر ادھر بھٹکنے کے بعد پھلواڑی کے بیچوں بیچ امریکن گراس سے سجے لان میں کھیلتے اَپنے بچوں ج‘ گئیں۔ فلک کی سمت اُٹھتے سر سبز پہاڑوں پر چھتنارپیڑوں سے بادلوں کے دَل کے دَل یوں اُٹھ رہے تھے جیسے وہاں جگہ جگہ آگ سلگ رہی ہو اور دُھواں ہی دُھواں اُوپر اُٹھ رہا ہو۔
ایسی ہی ٹھنڈی آگ اسے لگا اس کے اَندر بھی بھڑکنے لگی تھی۔
بادل رفتہ رفتہ پھیلتے پھیلتے کاٹیج کے گرداگرد لکڑی سے بنے ہوے جنگلے تک آپہنچے تھے۔ ہر طرف دُھند ہی دُھند تھی۔ چند لمحے پہلے جو پہاڑ گھنے پیڑوں اور اُمنڈتے بادلوں سے مزین نظر آ رہے تھے‘ وہ اب اس دھند میں گم ہو گئے تھے۔
یہی وہ موسم تھا‘ جو ہر سال گرمیوں میں‘ جب بچوں کو اسکولوں سے چھٹیاں ہوتی تھیں‘ اُسے یہاں رہنے پر مجبور کرتا تھا۔ آج سے کئی سال پہلے اِسی مہینے اور اِسی تاریخ کو راحیل اور حسینہ اِسی کاٹیج کی پھلواڑی کے بیچوں بیچ‘ وہاں جہاں نایاب‘ نبیل اور فرخ کھیل رہے ہیں‘ ایک دوسرے میں گم تھے۔۔۔ یا پھر شاید راحیل حسینہ میں گم تھا اور حسینہ۔۔۔
تب بھی بادل یونہی پیڑوں کی پھنگیوں سے اُٹھے تھے اور کاٹیج کے جنگلے کو پھلانگنے لگے تھے ۔ ان دونوں کو بادلوں کی یہ اٹکھیلیاں اچھی لگ رہی تھیں۔ پھر انہیں یوں محسوس ہوا تھاجیسے وہ بادلوں کی گود میں تھے۔
حسینہ راحیل کے مقابل بیٹھی تھی۔
اور اس کے نیم گھونگھریالے بال اس کے اُبھرے ہوے شانوں کو چھو رہے تھے۔ نگاہیں جھکی ہوئی تھیں اور گال سیب کی مانند سرخ ہو رہے تھے۔ راحیل کھسک کر اُس کے داہنے ہاتھ ہو گیا اور اُس کا سر اَپنے زَانُو پر ٹکا لیا۔ حسینہ نے کوئی مزاحمت نہ کی تھی اور خاموشی سے گیلی گھاس پر ٹانگیں پسار کر اپنے پورے چہرے کو راحیل کے سامنے کر دیا تھا۔ اُس کے چھوٹے چھوٹے ہونٹ مسکراہٹ کی پھوار سے گیلے ہو کر پھیل رہے تھے۔ پلکوں کی جھالر تھر تھرا کر اُوپر اُٹھتی اور پھر نیچے گر جاتی۔۔۔
گویا اُ س کی آنکھیں بند تھیں۔۔۔
اُس کی آنکھیں بند تھیں؟۔۔۔
اِس خیال کے آتے ہی راحیل کو یوں لگا جیسے ایک کوندا سا لپک کر اُسے بھسم کر گیا ہو۔۔۔
تب بھی اُس کی آنکھیں بند تھیں۔۔۔؟
اُن سرشاری کے لمحوں میں‘ جب کہ شادی کو محض تین روز گزرے تھے ۔۔۔تب بھی۔۔۔ تب بھی۔۔۔؟
اندر سینے میں درد بڑھتا ہی چلا گیا۔
اس نے بچوں کی جانب دیکھا۔ تینوں پہلے کی طرح کھیلنے میں مگن تھے۔۔۔ ایک دوسرے کے ہاتھ تھامے ۔۔۔ دائرے میں گھومتے ہوے۔۔۔ ایک دوسرے پر گرتے ہوے۔۔۔ قہقہے لگاتے ہوے۔۔۔ اور چیختے ہوے:
Ring a ring of roses
A pocket full of posies
Tishoo! tishoo!
We all fall down
اور راحیل کا ذِہن Fall Down۔۔۔ Fall Down کی تکرار سے گونج اُٹھا۔
بادل کاٹیج کا جنگلا پھلانگ کر پھلواڑی کے بیچ پہنچ گئے۔ اسے یوں لگ رہاتھا‘ بچے کبھی گیلی دھند میں گم ہوتے تھے اور کبھی ان بادلوں کی گود سے کود کر سامنے آجاتے۔ راحیل سَن روم سے باہر آگیا۔ اس کے بدن کا بہت سا خالی پن وسوسوں سے بھر گیا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ قدم بڑھاتا بچوں تک پہنچا۔ باری باری اَپنی نگہ کی لمبی پوروں کے لمس سے اُن کے چہروں کے ایک ایک خط کو ٹٹولا۔ پھر نفی میں دائیں بائیں سر ہلاتا ہوا واپس سَن روم میں پہنچااور خود کو کرسی پر گرا دیا۔
Fall Down۔۔۔Fall Down
بچے پہلے کی طرح اپنے کھیل میں مگن رہے۔
حسینہ‘ اُس کی بیوی یعنی اُس کے بچوں کی ماں‘ کچن میں اُس کے لیے چائنیز بنانے میں مصروف تھی۔۔۔ وہی حسینہ کہ جس نے راحیل کو کبھی بھی مایوس نہیں کیا تھا۔ اُسے یوں لگتا تھاکہ خلوص کا یہ مجسمہ ہر آن اُس کی دِل جوئی میں لگا رہتا تھا۔ بالکل ہمارے ہاں کی روایتی بیویوں کی طرح۔۔۔ راحیل کو اُس پر ناز تھا اور بے اَنت پیار بھی۔۔۔ اور شایدجس لمحے اس نے اپنے آپ کو پھلواڑی سے واپس آکر خود کو کرسی پر گرا لیا تھا تب تک اسے پیار تھا ۔۔۔ مگر یہ واقعہ بھی اپنی جگہ تھا کہ کل شام سے اس لمحہ تک تشکیک‘ تذبذب‘ بے قراری اور بے یقینی کی آری نے اُس کے لیے اور صرف اُسی کے لیے مخصوص راحیل کے باطنی جذبات کو اندر ہی اند رسے کاٹنا شرو ع کر دیا تھا۔
ہاں ۔۔۔ کل شام سے۔۔۔ کہ جب جمال‘ راحیل کو ملا تھا۔
وہی جمال جو کبھی راحیل کا کلاس فیلو تھا۔
اِسم با مسمیٰ۔۔۔ دراز قد‘ مضبوط بدن‘ کھلتی رنگت اور سب سے بڑھ کر اُ س کا شیریں لہجہ۔۔۔ شاید یہی وہ خصوصیات تھیں‘ جن کی وجہ سے وہ پوری یونیورسٹی میں ہر دِل عزیز تھا۔۔۔ اور شاید یہی وجہ تھی کہ انگلش لڑیچر کی طالبہ حسینہ اُس پر مر مٹی تھی۔
حسینہ بھی اَپنے نام کی طرح حسین تھی۔
نکلتا قد‘ نیم گھونگھریالے بال‘ فربہی شانے‘ بڑی اور بھوری آنکھیں‘ چھوٹے چھوٹے ہونٹ‘ صاف شفاف جلد‘ دودھیا رنگ میں شفق کی سرخی گھلی ہوئی۔ وہ دونوں کب سے ایک دوسرے کی چاہ میں بندھے ہوے تھے؟ اُن دنوں راحیل کو اِس کا علم نہ تھا۔۔۔ اور شاید اُس کو علم ہوتا بھی نہ‘ اگر وہ اس روز حسینہ کی سسکیاں نہ سن لیتا۔ ڈیپارٹمنٹ آف پتھالوجی کے عقب میں خوبصورت سے لان کی پرلی طرف دونوں مقابل بیٹھے تھے۔ جمال بے قراری سے اُسے دِیکھ رہا تھا۔ اور وہ اپنے گالوں پر ٹھہرے ہوے آنسو اَپنی مخروطی اُنگلیوں سے صاف کر رہی تھی۔ راحیل نے تجسس میں اَپنی چال مدہم کر لی۔
وہ کپکپائے لفظوں میں کَہ رہی تھی:
’’عورت اَپنی زِندگی میں صرف ایک ہی مرد کو چاہتی ہے‘ ہاں صرف ایک مرد کو۔۔۔ میں نے تمہیں چاہا ہے۔۔۔ تمہیں روح تک میں بسایا ہے۔۔۔ تمہارے لیے خواب دیکھے ہیں۔۔۔ تم سے اُمیدیں باندھی ہیں۔۔۔ بس تم ہی میرے مَن کے اَندر اُترے ہو۔ تم اور صرف تم میرا پیار ہو۔۔۔ یاد رکھنا ۔۔۔ میں تمہیں زِندگی بھر نہ بھلا سکوں گی۔‘‘
جمال چُپ چَاپ اُسے دِیکھے جا رہا تھا اور حسینہ بھی چند لمحوں کے لیے چُپ کے پانیوں میں اُتر گئی تھی۔۔۔ اور اِسی اثنا میں راحیل کچھ آگے نکل گیا۔
وہ پہلا دِن تھا کہ راحیل کو اُن دونوں کی محبت کا علم ہوا تھا۔
اوروہ آخری دن تھا کہ اُس نے جمال کو دِیکھا تھا۔
حسینہ بلا کی حسین سہی مگر اُس میں آج کل کی لڑکیوں جیسا چنچل پن نہ تھا۔ کسی نے بھی اس کے کھنکتے قہقہے نہ سنے تھے۔ وہ اکثر حیا کی چادر میں لپٹی لائبریری میں دیکھی جاتی یا پھر گنے چنے سنجیدہ سے دوستوں اور سہیلیوں کے ہمراہ کسی خشک سے موضوع پر محو گفتگو ہوتی ۔۔۔ اس کا پسندیدہ موضوع ادب و فلسفہ تھا۔ اِس پر وہ پہروں جمال کے ساتھ گفتگو کرتی۔ یہ ادبی وعلمی محافل زیادہ تر ڈیپارٹمنٹ آف پتھالوجی کے عقب والے خوبصورت لان میں جما کرتی تھیں۔ ان میں راحیل بھی کبھی کبھار شریک ہوا کرتاتھا۔ لیکن اکثر اوقات بحث اِتنی خشک ہوتی کہ وہ جلد اُکتا کر اُٹھ جاتا۔
اُس روز تک‘ کہ جس روز اُس نے جمال کو آخری بار دیکھا تھا اور حسینہ اَپنے دہکتے گالوں سے ڈھلکتے آنسو صاف کرتے‘ اور عورت کے ایک پیار کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے‘ جمال کو اَپنی محبت کا یقین دِلا رہی تھی۔۔۔ ہاں شاید اس روز تک‘ راحیل کو اس میں کبھی کوئی کشش محسوس نہ ہوئی تھی۔
ایک سنجیدہ سی فلسفی لڑکی‘ جو خشک موضوعات پر تو پہروں بولتی ہو‘ مگر دوستوں کو ایک کھنکتا قہقہہ تک نواز نہ سکے۔۔۔ اُس میں بھلا راحیل کو کشش محسوس ہوتی بھی تو کیوں کر؟
مگر اُس لمحے کہ جب اُس کے ہونٹ جمال کی محبت کی نمی سے تر تھے؛ راحیل کو یوں لگا‘ جیسے اس کے اندر کہیں نہ کہیں کچھ ہونے لگا تھا۔۔۔
وہ جو محض کتابوں میں غرق رہتی۔۔۔ وہ جو خشک ادبی و فلسفیانہ موضوعات پر پہروں بحث کرتی ۔۔۔ اور ۔۔۔ وہ کہ جسے کسی نے کُھل کر ہنستے ہوے نہیں دیکھاتھا۔۔۔ جو بلا کی حسین سہی۔۔۔ مگر جس کا کوئی سکینڈل یونیورسٹی کی فضا میں نہیں گونجا۔۔۔ اُس کے ہونٹ محبت کی پھوار سے تر بھی ہو سکتے تھے !۔۔۔ اُ س کا دِل محبت میں بے قرار ہونا بھی جانتاتھا!۔۔۔ یہ اُ س کی شخصیت کا ایسا حسین گوشہ تھا جو راحیل پر پہلی مرتبہ کُھلا تھا۔۔۔ اورکُھلا بھی یوں کہ اُسے اندر سے نہال کر گیا تھا۔
اس کے بعد تو اُس کی نظر میں کوئی بھی جچ نہیں رہا تھا۔ سب فیشن کی شائق‘ بات بات پر قہقہے لگانے والی‘ اٹھکیلیاں کرتی‘ آنکھیں مٹکاتی‘ جدید تہذیب میں ڈھلی ہوئی‘دھلی دھلائی چمکتی لڑکیاں بہت پیچھے رہ گئیں۔
پھر وقت نے کچھ یوں انگڑائی لی کہ اُسے حاصل کرنا راحیل کے لیے کوئی مشکل نہ رہا۔
اُس روز کہ جب پہلی مرتبہ اُس نے جمال کے لیے حسینہ کے ہونٹوں سے محبت کے بھیگے لفظ طلوع ہوتے دیکھے تھے اور کل شام کے اُس سمے تک کہ جب جمال اُسے ایک طویل عرصے بعد ملا تھا؛راحیل اور حسینہ کے بیچ جتنے موسم آئے‘ اُن میں سے ایک پر بھی جمال کا سایہ تک نہ تھا۔
اور اس روز کہ جب وہ راحیل کی دُلہن بن کر اُس کے آنگن میں اُتری تھی‘ اس روز سے کل شام تک کا ایک ایک لمحہ راحیل کی مٹھّی سے پھسل کر گزرا تھا۔ کل کا سارا دِن راحیل نے بچوں کے ساتھ کھیلتے اور حسینہ سے اٹھکیلیاں کرتے ہوے گزار دیا۔ شام ہونے کو آئی تو وہ بے دھیانی میں باہر نکل کھڑا ہوا۔ پیدل چلتا چلتا کارٹ روڈ سے ہوتا ہوا مال تک گیا۔ ہلکی ہلکی پھوار پڑرہی تھی۔ پانی سے بوجھل بادل ہوا کے سنگ ڈول رہے تھے اور جی چاہتا تھا‘ چھوٹے چھوٹے قدموں سے وہ یونہی چلتا رہے۔۔۔چلتا رہے۔ دفعتاً اُس کی نگہ جمال پر پڑی ۔۔۔ ایک لمحے کو وہ اُس نے اس کی جانب لپکنا چاہا مگر دوسری آن اِک دھڑکے نے اُس کے قدم جکڑ لیے۔
وہ چاہتا تھا‘ پہلو بچا کر نکل جائے۔ مگر وہ ایسا چاہتے ہوے بھی نہ کر سکا۔کہ جمال بہت قریب آچکا تھا اور اس نے اُسے دِیکھ بھی لیا۔ اُس نے مصنوعی گرمجوشی سے اُسے بغل گیر کیا۔۔۔ طویل عرصے تک گم رہنے کا گلہ کیا اور کوئی بہانہ بنا کر کھسک جانے کا ارادہ باندھا۔ مگر جب جمال نے نہایت اپنائیت سے کافی کے کپ پر جا چکے لمحوں کو یاد کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو وہ مجبوراً ساتھ ہو لیاتھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اُن کے سامنے کافی کے گرم گرم کپ پڑے تھے جن سے بھاپ اُٹھ رہی تھی اور شیشے کی دیوار کے اُس پار بوندا باندی ہو رہی تھی۔ پانی سے بوجھل بادل اِدھر اُدھر بھٹک رہے تھے۔۔۔ اور راحیل اس کے مقابل بیٹھا اس کے سوالوں کے زدّ پر تھا۔۔۔ وہ کہ جو بالکل نہ بدلا تھا۔۔۔ بس آنکھوں پر نظر کا چشمہ لگ گیا اور کنپٹیوں پر چند بال سفید ہو گئے تھے۔۔۔ پوچھ رہا تھا:
’’شادی کی؟۔ بھابھی کیسی ہے؟۔۔۔ بچے کتنے ہیں؟۔۔۔‘‘
راحیل پر یہ سوال بہت گراں گزررہے تھے۔۔۔ وہ پہلو بچا بچا کر جواب دِیتا رہا اور کسی بھی لمحے اُس پر یہ نہ کُھلنے دِیا کہ وہی حسینہ جو بہت عرصہ قبل ڈیپارٹمنٹ آف پتھالوجی کے عقب والے گراؤنڈ میں روتے ہوے اور عورت کے ایک پیار کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے‘ اسے اَپنی محبت کا یقین دلا رہی تھی؛ وہی۔۔۔ ہاں وہی۔۔۔ حسینہ اب اس کی بیوی تھی ۔۔۔ اس کے بچوں کی ماں ۔۔۔ اس کے لیے پل پل جینے والی۔۔۔ ہر لمحہ اس کی خُوشنودی کے لیے مصروف ۔۔۔ اسے حسینہ پر اعتماد تھا۔۔۔ مگر نہ جانے کیوں‘ وہ جمال پر یہ سب کچھ ظا ہر نہ ہونے دینا چاہتا تھا۔ تب ہی تو اُس نے موضوع بدلنے کے لیے اَپنے سوالات کا رُخ جمال کی جانب کر دیاتھا۔
’’تم۔۔۔ تم ایکا ایکی کیسے غائب ہو گئے تھے؟۔۔۔ مجھے یاد ہے ‘ میں نے تمہیں آخری بار ڈیپارٹمنٹ آف پتھالوجی کے عقب والے لان میں دیکھا تھا۔۔۔‘‘
’’میں بزدل تھا‘‘
راحیل چونک پڑا‘ نگاہیں اُس کے چہرے پر گاڑتے ہوے کہا:
’’بزدل؟‘‘
وہ راحیل کے کندھے سے پرے شیشے کی اُس جانب پانی سے بوجھل آوارہ بادلوں کو دیکھتے ہوے گویا ہوا:
’’بزدل۔۔۔ ہاں بزدل۔۔۔ میں واقعی بہت بزدل تھا‘‘
پھر اُس نے راحیل کو آنسوؤں سے لبریز آنکھوں سے دیکھا اور کہا:
’’میرے دوست‘‘
اس کی آواز‘ جو کہیں دور سے آرہی تھی‘ پھر کہیں گم ہو گئی۔ ہونٹ تھرتھرائے اور لفظ ایک ایک کر کے اس کے ہونٹوں سے یوں پھسلنے لگے کہ بمشکل راحیل تک پہنچ پارہے تھے:
’’اس روز کہ جب تم نے مجھے آخری مرتبہ دیکھا تھا۔۔۔ اس نے پہلی مرتبہ محبت کے بھیگے لفظ سے اپنے ہونٹوں کو معطر کیا تھا۔
میں حیرت سے اُسے دِیکھ رہا تھا۔
خُوِشی کا سما ملا تھا تو یوں کہ میرے بدن کا ایک ایک خلیہ دُکھ کی بھٹی میں بُھن رہا تھا۔۔۔
میں اُسے خدا حافظ کَہ دینے پر مجبور تھا۔۔۔ کہ میں بزدل تھا۔ مگر اُس نے سب کچھ سننے کے بعد بھی وہ لفظ کہے تھے‘ جن کو اُس کے سامنے کَہ دینے کا مجھے کبھی حوصلہ نہ ہوا۔۔۔ اور جن کو سننے کی چاہ میں ‘مَیں نے طویل اِنتظار کا دُکھ سہا تھا۔۔۔‘‘
راحیل پہلو بدل رہا تھا۔
مگر جمال رندھا جانے والی آواز میں اُسے بتا رہا تھا:
’’جس روز میں نے اُسے آخری بار دیکھا تھا۔ اُس سے ایک رات قبل میرا باپ قتل ہو گیا تھا۔۔۔ اور ابھی میں باپ کی لاش کے حصول کے لیے جائے وقوعہ کی جانب بھاگ رہا تھا کہ میرے چچا نے‘ میری راہ روک کر‘ مجھے بتایا تھا‘ میرے باپ کے قاتل کو لہو میں نہلا دِیا گیا ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا تھا‘ دشمنوں کا شک مجھ پر ہے کہ یہ دوسرا قتل میں نے باپ کا بدلہ لینے کے لیے کیا ہے۔۔۔‘‘
پھر رات ابھی میں نے اپنے باپ کی نعش دفن بھی نہ کی تھی کہ مجھے بتایا گیا‘ میری جان خطرے میں ہے‘۔۔۔ اور یہ بھی ۔۔۔ کہ۔۔۔ میرے خلاف قتل کا مُقدّمہ درج کرانے کے لیے آدمی تھانے کی جانب روانہ ہو چکے ہیں۔ تب جلدی جلدی آخری رسومات ادا کی گئی تھیں‘ جنازہ پڑھا گیا‘ قبر تیار ہوئی اور میرے مقتول باپ کو دفن کر دیا گیا۔۔۔ پھر رات کے اندھیرے میں ہی مجھے گاؤں سے باہر لے جایا گیا۔۔۔ تاکہ دشمنوں کی جانب سے ممکنہ کارروائی سے مجھے بچایا جا سکے۔۔۔‘‘
جمال نے درد میں ڈوبی ہوئی آواز میں کہا:
’’میں بہت خوفزدہ تھا۔
مجھے باور کرادیا گیا تھا کہ اگر میں گرفتار ہو گیا تو سیدھا پھانسی کے تختے تک جا پہنچوں گا۔۔۔ اور ۔۔۔اور۔۔۔اگر دشمنوں کے ہتھے چڑھ گیا تو قتل کر دیا جاؤں گا۔۔۔
خوف نے مجھے بزدل بنا دیا تھا۔
اور۔۔۔ میں نے اسے روتا چھوڑ کر امریکہ بھاگ جانے کا ارادہ باندھ لیا تھا۔۔۔‘‘
جمال بتا رہا تھا:
’’اس روز ۔۔۔کہ جب میں آخری بار حسینہ سے ملا تھا؛ اُسی روز میرا چچا بھی گاؤں سے آ کر مجھے ملا تھا۔۔۔ اُسی نے میرے فرار کا سارا بندوبست کیا تھا۔ میرا چچا بہت بااثر شخص تھا اور ایسا اِنتظام کرنا اس کے لیے کوئی مشکل کام نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس رات کی آخری فلائٹ میں میرے سیٹ کنفرم ہو چکی تھی۔‘‘
جمال نے راحیل کی جانب دیکھتے ہوے کہا:
’’بہت بعد۔۔۔ہاں جب وہ سارا وقت گزر چکا تھا جو میری گرفت میں آسکتا تھا۔۔۔ مجھے ایک باوثوق ذریعے سے معلوم ہوا تھا کہ میرے باپ کا قتل‘ بدلے میں ایک اور معصوم کا قتل اور دشمنوں کی جانب سے میرے خلاف قتل کا مُقدّمہ‘ اِس سب کچھ کے پیچھے میرے چچا کا ہاتھ تھا۔ سارا ڈرامہ چچا نے میرے باپ کے دشمنوں سے مِل کر رَچایا تھا کہ اسی طرح وہ اس ساری جائیداد پر قابض ہو سکتا تھا جو میرے باپ اور پھر میری وجہ سے تقسیم ہو کر اس کے ہاتھوں سے پھسلتی جا رہی تھی۔‘‘
جمال نے اَپنی مٹھیاں بھینچ لیں‘ ہونٹ دانتوں تلے کاٹے اور لفظ چباتے ہوے راحیل سے کہا:
’’کاش میں موت سے نہ بھاگتا۔۔۔ مارا جاتا یا پھانسی چڑھ جاتا۔۔۔ اس طرح کم از کم نہ ختم ہونے والے مسلسل اَذِیّت کے عذاب سے تو بچ جاتا‘‘
اس نے اَپنی مٹھیاں کھول دیں‘ کہنیوں کو میز پر ٹکاتے ہوے اَپنی کنپٹیوں کے اُن بالوں کو اَپنی انگلیوں میں پھنسا لیا‘ جو اس عرصے میں سفید ہو گئے تھے۔۔۔ پھر کہیں دُور سے آتی ہوئی آواز میں اُسے بتانے لگا:
’’وہ بہت بہادر تھی۔۔۔ وہ کہ جو حیا کا مجسمہ تھی۔۔۔ اور ۔۔۔ جس نے شاید پہلی مرتبہ اَپنی محبت کا اقرار لفظوں میں کیا تھا۔۔۔ اور جس نے یقیناًخُون کے رِشتوں سے باہر مجھ سے پہلی محبت کی تھی۔۔۔ اور سچ کہا تھا کہ میں اسے نہ بھول پاؤں گا۔۔۔‘‘
جمال ایک لمحے کو چپ ہو گیا۔۔۔ ایک گہری سانس لینے کے بعد ٹھنڈی کافی کا آخری گھونٹ بھرا اور دوبارہ جا چکے لمحوں کی وادی میں کھو گیا۔ راحیل کو وہ لفظ بتائے جو اُس نے خود کئی سال پہلے ڈیپارٹمنٹ آف پتھالوجی کے عقب والے خوبصورت لان کے پاس سے گزرتے ہوئے‘ حسینہ کے بھیگے ہونٹوں سے سنے تھے۔ پھر جمال نے اُسے بتایا تھا کہ حسینہ کیسے رو دی تھی۔ اُس کا خیال تھا:
’’بے شک وہ رو دِی تھی‘ مگر تھی جی دار‘ کہ موت کی وحشت اس کے لیے کوئی مسئلہ نہ تھا۔ تب ہی تو وہ مجھے کَہ رہی تھی:
’’دیکھو ایک ہی ہلے میں مر جانا اَذِیّت ناک نہیں ہوتا۔۔۔ ہاں اندر اور باہر کے جذبوں کی خلیج کے ساتھ زِندگی کا جبر سہنا بہت اَذِیّت ناک ہوتا ہے۔۔۔‘‘
جمال کہ‘ جس کا چہرہ پچھتاوے کے دَرد سے تَن گیا تھا‘ کہنے لگا:
’’اس لمحے میں اُس کی بات نہ سمجھ سکا تھا۔۔۔ مگر اب جب کہ بیتے ہوے ایک ایک لمحے میں موت کا زہر میرے ایک ایک خلیے میں اُترتا رہا ہے اور میں قسط در قسط موت کی کڑواہٹ چکھنے پر مجبور رہاہوں۔۔۔ مجھے اس کی بات حرف بہ حرف درست معلوم ہوتی ہے۔۔۔‘‘
اُس نے پہلو بدلتے ہوے اَپنی بات آگے بڑھائی:
’’جینفر وہ لڑکی تھی جو شریکِ حیات بن کر میری زِندگی میں آئی ۔۔۔ خوب صورت اونچے اونچے پلازوں اور عمارتوں والے مین ہنٹن کے ہاورڈ جانس ہوٹل میں وہ مجھ سے ملی تھی۔۔۔ پہلے دوستی ہوئی۔۔۔ پھر جینفر نے خیال ظاہر کیا کہ ہم دونوں بہترین لائف پارٹنر ثابت ہو سکتے تھے ۔۔۔لہٰذا ہماری شادی ہو گئی۔۔۔ اُس میں گرمجوشی کوٹ کوٹ کر بھر ی ہوئی تھی۔۔۔
سنہرے بالوں‘ سبز آنکھوں اور کچے دودھ جیسی رنگت اور ذائقے والی جینفر نے میری شخصیت کو بڑی حد تک سہارا دیا تھا۔۔۔ اور میں مالی طور پر بھی مستحکم ہوتا چلا گیا۔
میں نے یقین کر لینا چاہا تھا کہ زِندگی مجھ پر مہربان تھی۔
مگر میں اندر ہی اندر سے اُس جا چکے لمحے کی گرفت میں تھا کہ جب حسینہ نے مجھے اَپنی محبت کا یقین دلایا تھا۔۔۔ اور کہا تھا۔۔۔ کہ میں اسے نہ بھول پاؤں گا۔۔۔ جب بھی آنکھیں جھپکاؤں گا اس کی صورت سامنے پاؤ ں گا۔‘‘
جمال نے پہلو بدلا‘ ایک لمبی سانس بھری:
’’آہ!۔۔۔ میرے ساتھ ایسا ہی ہوتا رہا ہے میرے دوست۔۔۔ میں آسُودگی کے اُن دِنوں میں بھی اُسے یاد کرتا رہا ہوں۔ خصوصاً وہ لمحے تو میرے لیے بہت اَذِیّت ناک بن جاتے‘ جب بہ ظاہر میں جینفر کو پیار کر رہا ہوتا مگر آنکھیں بوجھل ہوتے ہوتے بند ہو جاتیں۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔ بند آنکھوں میں حسینہ آسماتی۔۔۔‘‘
اب راحیل پہلو بدل رہا تھا۔۔۔ اَندر ہی اَندر کھول رہا تھا۔۔۔ چاہتا تھا‘ موضوع بدل جائے۔۔۔ مگر جمال کی آواز میں وہ درد اور تسلسل تھا کہ وہ اُس کی کَہانی کو آخر تک سننا چاہتا تھا۔
جمال کَہ رَہاتھا۔
’’پھر یوں ہوا کہ میں اَپنی باطنی کیفیات کی وجہ سے چڑ چڑا ہوتا چلا گیا۔
باپ کے قتل اور مقدمے میں پھنسائے جانے کا اصل سبب معلوم ہونے کے بعدمیرے باطن میں اِنتقام کی ایک آگ بھڑک اُٹھی تھی۔ میرے اندر کا بزدل کہیں لمبی تان کر سو گیا تھا۔ لمحہ لمحہ میرے وجود میں اُترنے والا موت کا زہر میرے باطن میں دفن جذبوں کے لاشوں کے لیے تریاق کا کام کر رہا تھا۔۔۔ اَپنا وطن‘ اَپنے دشمن‘ اَپنے لوگ‘ اَپنی نفرتیں‘ اَپنا کلچر‘ اَپنی محبتیں اور سب سے بڑھ کر اَپنی حسینہ‘ سبھی میرے جذبوں میں نئی حیات پا رہے تھے۔
جینفر کے ہاں ماریہ پیدا ہوئی تو اُس وقت تک بہت کچھ موقع بے موقع میرے سینے سے باہر اُبلنا شروع ہو گیا تھا۔‘‘
جمال کَہ رہا تھا:
’’ایک روز‘ کہ جب ماریہ گھٹنوں کے بل چلنے کے قابل ہو گئی تھی‘ میں اس کے پاس سے گزرا تو اُس نے اپنے ننھے ہاتھوں سے میری پتلون کے پائنچے کو تھام لیا۔ میں نے جھک کر اُس کے ہاتھ کی گرفت ڈھیلی کی‘ نگہ چہرے پر پڑی تو عجب سی اُلجھن میں گرفتار ہو چکا تھا۔
ماریہ جب سے پیدا ہوئی تھی‘ روزانہ سینکڑوں مرتبہ میں نے اُسے دِیکھا تھا‘ اُس سے پیار کیا تھا۔ مگر اُس روز کہ جب وہ اپنا وہ کھلونا حاصل کرنا چاہتی تھی جو میز کے اوپر پڑا تھا۔۔۔ اور جس کے لیے اس کی آنکھوں سے آنسو ڈھلک کر اس کے رخساروں پر ٹھہر گئے تھے۔۔۔ اور اس نے میری مدد حاصل کرنے کے لیے مجھے روکا تھا۔۔۔اُس روز مجھے یوں لگا تھا‘ وہ توہُوبہ ہُو حسینہ کی تصویر تھی۔ وہی نیم گھونگھریالے بال‘ وہی بھوری آنکھیں‘ چھوٹے چھوٹے ہونٹ‘ صاف شفاف شفق کے رنگ میں گندھی جلد‘ اُبھرے اُبھرے گال۔ ستم بالائے ستم یہ کہ گالوں پر دو آنسو بھی ویسے ہی ٹھہرگئے تھے‘ جیسے اس آخری روز حسینہ کے گالوں پر ٹھہرے تھے؛ جب اس نے پہلی مرتبہ محبت کے لفظ سے اپنے ہونٹوں کو گیلا کیا تھا۔‘‘
راحیل ہمہ تن گوش تھا مگر اُس کے سینے میں دِل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اِتنی زور سے کہ راحیل کو خدشہ تھا‘ دِل کے دھڑکنے کی آواز جمال تک بھی پہنچ رہی ہو گی۔
مگر جمال اس کی کیفیات سے بے نیاز‘ شیشے کی دیوار سے پرے‘ ہوا کے جھولے میں ہلکورے کھاتے بادلوں کو دیکھ رہا تھا اور کَہ رہا تھا:
’’پھر حسینہ مجھے بند آنکھوں کے ساتھ ساتھ کھلی آنکھوں سے بھی نظر آنے لگی۔ جینفر مجھ سے دور‘ بہت دور ہوتی چلی گئی۔ وہ کب آتی‘ کب جاتی؟۔۔۔ مجھے پروا ہ نہ تھی۔ شروع شروع میں تو وہ جھنجھلا اُٹھتی اور مجھے جھنجھوڑ کر اَپنی موجودگی کا احساس دِلانے کی کوشش کرتی رہی۔ مگر رفتہ رفتہ اس کا دَم گھٹنے لگا۔۔۔ اور جب ماریہ‘ جو اچھی بھلی تھی‘ ایک رات چپ چاپ مر گئی تو جینفر مجھ سے یوں جدا ہو گئی‘ جیسے ہمارا ساتھ کچھ دیر کی مسافرت کا ساتھ تھا۔ اُس کا ٹرمینل آیا اور وہ اُتر گئی تھی۔‘‘
جمال اُٹھ کھڑا ہوا۔ شیشے کی دِیوار تک پہنچا‘ اُس پر جمے پانی کے قطروں کو اَپنی انگلیوں سے چھوا‘ پھر واپس اَپنی نشست تک آیا اور بیٹھ گیا۔ کہا:
’’راحیل میرے دوست! زِندگی مجھے بس یونہی چھوتی رہی ہے‘ جیسے باہر بادل شیشے کی دیوار کو چھورہے ہیں۔ مگر میرے اَندر دُکھ قطرہ قطرہ بن کر جم گئے ہیں۔ ماریہ کے مرنے اور جینفر کے بچھڑنے کے بعد سوچا‘ لمحہ لمحہ قسطوں میں مرنے کی بہ جائے ایک ہی جست میں اَذِیّت سے رہائی کی جدوجہد کیوں نہ کروں۔۔۔‘‘
اُس نے راحیل کی طرف دیکھا اور اَپنی بات کا تسلسل برقرار رکھا:
’’پھر میں نے خود کو سمیٹنا شروع کر دیا اور یوں واپس پلٹ آیا۔
کل جب ایئرپورٹ پر اُترا تو میں خیال کے کئی الجھاووں میں پھنسا ہوا تھا۔ میرے سامنے سب سے اَہم بات چچا سے بھگت چکے عذابوں کا حساب چکانا تھااور اُس کے لیے میں نے طرح طرح کی منصوبہ بندی کی تھی۔ مگر جونہی ایئر پورٹ پر اترا اور لاؤنج میں پبلک کال آفس پر نگہ پڑی؛ جی چاہا‘ حسینہ کے گھر فون کر کے اُس کے بارے میں معلومات حاصل کروں۔‘‘
راحیل بے چینی سے پہلو بدل رہا تھا۔ اب کے اُسے واقعی ایسے لگا‘ دِل حلق سے باہر آگرے گا۔۔۔ جمال کَہ رہا تھا:
’’میں نے وہیں اَپنا وہ سوٹ کیس کھولا‘ جس میں میرے اندازے کے مطابق میری اس ڈائری کو ہونا چاہئے تھا‘ جس میں حسینہ نے آخری روز اپنے ہاتھ سے میرے لیے ایک نظم لکھی تھی پھر میری خواہش پر اپنا پتہ اور فون نمبر بھی لکھ دیا تھا۔ یہ ڈائری ہمیشہ میرے پاس رہی تھی۔ ڈائری مجھے مل گئی۔ میں نے فون نمبر ملایا۔ دوسری طرف غالباًاس کی امّی کی ٹھہری ٹھہری آواز تھی۔ میں نے اپنا تعارف یونیورسٹی کے ایک قدیم دوست کی حیثیت سے کرایا اور حسینہ کا حال پوچھا۔ اس کی امی نے بتایا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ آج کل مری میں ہے۔ یہ سنتے ہی مرا دِل بوجھل ہو گیا۔ ٹیلی فون کے اس جانب ہیلو ہیلو کی آواز آر ہی تھی۔ مگر میں نے ریسیور کریڈل پر رَکھ دیا۔ یہ بھی نہ پوچھ سکاتھاکہ وہ کون خُوِش نصیب ہے جو اس کا جیون ساتھی بنا؟‘‘
راحیل کا دورانِ خُون معمول پر آنا شروع ہو گیا۔۔۔ جمال نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں‘ کہا:
’’دوست معلوم نہیں‘ میں کیوں مری آیا ہوں؟ بے ارادہ اِدھر قدم اُٹھ گئے ہیں۔۔۔ اور اب جب کہ میں تمہارے سامنے بیٹھا ہوں تو میرے اندر یہ خواہش بھی جنم لے رہی ہے۔ کاش جس طرح تم مجھے یونہی سر راہ مل گئے ہو‘ وہ بھی مل جائے۔۔۔ اور میں اسے بتا سکوں کہ برسوں پہلے اس نے جو کچھ کہا تھا‘ سچ کہا تھا۔۔۔ پَل پَل اَندر اور باہر کی دُوئی کے ساتھ جینا واقعی اَذِیّت ناک ہوتا ہے۔
اور اسے بتا سکوں کہ میں نے نہ صرف اُسے بند آنکھوں میں دِیکھا ہے بل کہ ہر ہر پل خود پر مسلط ہوتے پایا ہے۔۔۔کاش اُس سے پوچھ سکوں کہ کیا وہ بھی میری طرح اَندر اور باہر کے متصادم جذبوں کی ننگی کٹار پر برہنہ پا چلتی رہی ہے؟۔۔۔ کیا اُسے بھی اَپنے بچوں میں اُس لمحے کی تصویر نظر آتی ہے‘جب پہلی مرتبہ اُس کے ہونٹ محبت کے لفظ سے بھیگے تھے کیا اس نے بھی بند آنکھوں کا عذاب جھیلا ہے؟۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔‘‘
جمال بولے جارہا تھا اور راحیل کے ذِہن میں بھونچال اُٹھ رہے تھے۔ نہ جانے کب اُس نے اَپنی گفتگو کا سلسلہ روکا‘ نہ جانے کب اُس نے اِجازت چاہی اور وہ چل دیاتھا۔
مگر جب وہ کچھ دور جا چکا تو راحیل کو اَپنی سردمہری پر دُکھ ہوا۔ وہ معذرت کے لیے اُس کے تعاقب میں چل پڑا۔ اس نے جمال کو ایک ہوٹل میں داخل ہوتے دِیکھ لیا تھا۔ کاؤنٹر سے اس کا کمرا نمبر پوچھا اور اس کے کمرے میں جانے کے لیے سیڑھیاں چڑھنے لگا۔۔۔ ابھی آخری سیڑھی پر نہ پہنچا تھا کہ اس کے قدموں نے ساتھ دِینے سے اِنکار کر دِیا اور وہ وہیں سے لوٹ آیا۔
جمال سے ملنے کے بعد سے لے کر اس لمحے تک ۔۔۔ کہ جب وہ سن روم میں بیٹھا اُن بادلوں کو دِیکھ رہاتھا جو پار درختوں کی پھنگیوں سے اُٹھے تھے اور اس کے آنگن میں آکر اِدھر اُدھر اُڑ رہے ہیں‘ تشکیک‘ تذبذب‘ بے یقینی اور بے قراری کے کانٹوں کی چبھن بدن کے ایک ایک خلیے پر محسوس کر رہا تھا۔ گئی رات اس نے اپنے سارے وسوسوں کو جَھٹک دِیااور حسینہ کی جانب پہلے کی سی وارفتگی سے بڑھا تھا مگر چند ہی لمحوں کے بعد جب حسینہ کی آنکھیں پیار سے بوجھل ہو کر بند ہونے لگیں تو اسے یوں لگا تھا؛ جیسے ایک بجلی کا کوندا تھا جو اس پر لپک پڑا تھا۔
اِن بند آنکھوں سے پَرے۔۔۔ نہیں نہیں
وہ اَپنا خیال جَھٹک کر اُٹھ بیٹھا۔ دیر تک باہر پھلواڑی میں گھومتا رہا۔ بادلوں کی چند ٹکڑیوں کے سنگ اٹکھیلیاں کرتی چاندنی کو دِیکھتا رہا‘ محسوس کرتا رہا۔
حسینہ بلا شبہ اس اترتی چاندنی کی طرح پاکیزہ تھی۔۔۔ مگر بند آنکھیں۔۔۔؟
اُسے اپنا دِل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔ پھر حسینہ کی ریاضتیں یاد آئیں جو اُس نے اُس کی خُوِشنودی کے لیے ہر آن کی تھیں۔۔۔ خیال آیا‘ ایسا تو ہر مشرقی بیوی کرتی ہے۔۔۔ مگر دِل کے اندر کون ہے؟
رات یونہی کانٹوں پر لوٹتے ہوے گزر گئی۔۔۔
اور اب جب کہ اس نے بچوں کے چہروں کی لکیروں کو بھی ٹٹول لیا تھا۔۔۔ تو عجب عجب خدشے سر اٹھانے لگے تھے۔ کہیں جمال واقعی حسینہ کے مقابل ہو گیا ہو تو؟۔۔۔
اس کا تصور ہی راحیل کے لیے جان لیوا تھا۔۔۔ وہ دھیرے دھیرے اُٹھا‘ کپڑے بدلے‘ بیوی کو کل شام تک واپس لوٹ آنے کا کہا۔۔۔ ارادہ تھا‘ جمال کے چچا کو ایک اَہم اطلاع دینے اس کے گاؤں جائے گا۔۔۔ مگر ابھی ایک قدم دہلیز سے باہر تھا کہ اسے لگا‘ دوسرا قدم اٹھا نہ پائے گا۔
دہلیز اوپر ہی اوپر اٹھتی چلی جا رہی تھی جو اس کے وجود کو دو لخت کیے دیتی تھی۔
اُس کا سینہ درد سے بھر گیا۔ آنکھیں جل تھل ہو گئیں۔ سر گھومنے لگا اور سارا بدن ڈولنے لگا۔ یوں جیسے وہ بے پتوار کشتی میں سوار منھ زور لہروں کے تھپیڑوں کی زد میں ہو۔ اس کی آنکھیں بند ہور ہی تھیں۔ دفعتاً حسینہ کی نگہ راحیل پر پڑی۔ وہ گھبرائی ہوئی اس تک پہنچی۔ کچن سے مرچوں کی دھانس اُٹھ کر نتھنوں میں گھس رہی تھی مگر حسینہ کے ہاتھ پاؤں پھول چکے تھے اور وہ راحیل پر جھکی ہوئی تھی۔ راحیل نے بوجھل آنکھوں کو تھوڑا سا وا کیا۔ گھبرائی ہوئی حسینہ کی آنکھوں میں جھانکا اور دھیرے سے آنکھیں موند لیں۔
باہر پھلواڑی سے بچوں کے چیخنے کی آوازیں اسی طرح آ رہی تھیں۔
Fall Down
Fall Down
حسینہ نے ہاتھ بڑھا کر اس کے جھولتے بدن کو سہارا دیا جو ڈھیلا پڑنے لگا تھامگر وہ نیچے۔۔۔ اور نیچے۔۔۔ عین دروازے کے بیچ ڈھلکتا چلا جارہاتھا۔