Khaavar Jilani

خاور جیلانی

خاور جیلانی کی غزل

    ہمیشہ کی طرح بانہیں مری پتوار کرنے کا

    ہمیشہ کی طرح بانہیں مری پتوار کرنے کا کیا ہے فیصلہ ناؤ نے دریا پار کرنے کا وہی ہے مشغلہ صدیوں پرانا آج بھی اپنا زمیں پر بوجھ ہونے آسماں کو بار کرنے کا سفر کا مرحلہ تو بعد میں محل نظر ہوگا ابھی تو مدعا ہے راستہ پر خار کرنے کا تعلق ٹوٹتا جاتا ہے اپنے آپ سے میرا توسط بن رہی ہے آگہی ...

    مزید پڑھیے

    رفت و آمد بنا رہا ہوں میں

    رفت و آمد بنا رہا ہوں میں راہ مقصد بنا رہا ہوں میں کام میں لا کے کچھ خس و خاشاک اپنی مسند بنا رہا ہوں میں زندگی جرم تو نہیں لیکن ہو کے سرزد بنا رہا ہوں میں یوں ہی بے کار میں پڑا خود کو کار آمد بنا رہا ہوں میں گویا اپنی حدود سے بڑھ کر اپنی سرحد بنا رہا ہوں میں کر رہا ہوں حیات نو ...

    مزید پڑھیے

    مفصل داستانیں مختصر کر کے دکھائیں گے

    مفصل داستانیں مختصر کر کے دکھائیں گے طوالت عمر بھر کی جست بھر کر کے دکھائیں گے جو سپنے دیکھ رکھے ہیں جہان دیدۂ وا نے انہیں تعبیر کے زیر اثر کر کے دکھائیں گے یہ وہ نمناکیاں ہیں جو ہوا دیں گی الاؤ کو یہ وہ آنسو ہیں جو خود کو شرر کر کے دکھائیں گے بھروسہ رہ گیا کچھ خاک کو ہم پر اگر ...

    مزید پڑھیے

    نافع ہے کچھ تو وہ کسی فیضان ہی کا ہے

    نافع ہے کچھ تو وہ کسی فیضان ہی کا ہے ورنہ تعلقہ مرا نقصان ہی کا ہے کلفت ہے سب کی سب یہ توقع کے نام کی جو بھی کیا دھرا ہے یہ امکان ہی کا ہے مال و منال دست گہہ حادثات کا رہتے ہیں گر بحال تو اوسان ہی کا ہے منظر وہ ہے کہ جو کبھی ششدر نہ کر سکے حیرت یہ ہے کہ دیدۂ حیران ہی کا ہے الزام ...

    مزید پڑھیے

    دکھ تو دکھ تھے جو ادھر بہر اماں آ نکلے

    دکھ تو دکھ تھے جو ادھر بہر اماں آ نکلے آپ اس دل کے خرابے میں کہاں آ نکلے اک ذرا نکلے تو آواز دبا دیں اپنی کیا کریں چپ کا اگر اس کی زباں آ نکلے جانے کب قہقہے رونا پڑیں احباب کے ساتھ جانے اطراف میں کب شہر فغاں آ نکلے کچھ تو دل جوئی چلے دھوپ نما خواہش کی دشت میں تذکرۂ ابر رواں آ ...

    مزید پڑھیے

    سر ایذا رسانی چل رہی ہے

    سر ایذا رسانی چل رہی ہے طبیعت میں گرانی چل رہی ہے اسی دل کے ہزاروں وسوسوں میں وہی دھڑکن پرانی چل رہی ہے چلا جاتا ہے ہر اک چل چلاؤ جو شے ہے آنی جانی چل رہی ہے میں برگ خشک ہوں ہم راہ میرے ہوا کی بد گمانی چل رہی ہے بدن میں سانس کی صورت یقیناً کوئی نقل مکانی چل رہی ہے بہت ہی مختصر ...

    مزید پڑھیے

    روح کے دامن سے اپنی دنیا داری باندھ کر

    روح کے دامن سے اپنی دنیا داری باندھ کر چل رہے ہیں دم بہ دم آنکھوں پہ پٹی باندھ کر یہ کہانی ایک ایسے سر پھرے موسم کی ہے خشک پتوں سے جو لے آیا تھا آندھی باندھ کر حق اگر کوئی نمو کا تھا تو وہ اس نے ادا کر دیا ہے بادلوں سے آبیاری باندھ کر صبح ہوتی ہے تو کنج خوش گمانی میں کہیں پھینک دی ...

    مزید پڑھیے

    عطا کے زور اثر سے بھی ٹوٹ سکتی تھی

    عطا کے زور اثر سے بھی ٹوٹ سکتی تھی وہ شاخ بار ثمر سے بھی ٹوٹ سکتی تھی میں دل میں سچ کی نمو سے تھا خوف کھایا ہوا کہ سیپ تاب گہر سے بھی ٹوٹ سکتی تھی اسی پہ تھا مرے ہر ایک تیر کا تکیہ کماں جو کھینچ کے ڈر سے بھی ٹوٹ سکتی تھی پڑی تھی آہ کو ہی خود نمائی کی ورنہ خموشی دیدۂ تر سے بھی ٹوٹ ...

    مزید پڑھیے

    بہتر کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے

    بہتر کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کمی کہیں پوشیدہ کوئی رہ جاتی ہے من چاہی تصویر بنانے میں مجھ سے ہنر وری میں کچھ کوتاہی رہ جاتی ہے سیلاب آ جانے پر اس بستی کی ساری پختہ کاری کچی رہ جاتی ہے بننے والی بات وہی ہوتی ہے وہ جو بنتے بنتے یکسر بنتی رہ جاتی ہے رہ جاتی ہے آتے آتے آتی ...

    مزید پڑھیے

    کچھ بچا لے ابھی آنسو مجھے رونے والے

    کچھ بچا لے ابھی آنسو مجھے رونے والے سانحے اور بھی ہیں رونما ہونے والے وقت کے گھاٹ اتر کر نہیں واپس لوٹے داغ ملبوس مہ و مہر کے دھونے والے دائم آباد رہے دار فنا کے باسی فکر میں روح بقایاب سمونے والے تھرتھراتی رہے اب خواہ ہمہ وقت زمیں سو گئے خاک ابد اوڑھ کے سونے والے جس پہ بھی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2