Kavish Badri

کاوش بدری

  • 1927

کاوش بدری کی غزل

    دست کہسار سے پھسلا ہوا پتھر ہوں میں

    دست کہسار سے پھسلا ہوا پتھر ہوں میں سر بسر سنگ تراشوں کا مقدر ہوں میں گھونٹ لمحات کی پی پی کے دھلا جاتا ہوں ان گنت وقت کے دھاروں کا شناور ہوں میں کیا ڈبو دیتا ہوں میں دل کے کنویں میں خود کو چشم بے نور میں یوسف کا برادر ہوں میں کرچیاں ذہن میں پیوست ہیں پلکوں کی طرح چشم ایام سے ...

    مزید پڑھیے

    ایک اک گام پہ پتھراؤ ہوا ہے مجھ میں

    ایک اک گام پہ پتھراؤ ہوا ہے مجھ میں سلسلہ غم کا بہت دور چلا ہے مجھ میں اتنا پھیلا ہوں سمٹنا ہی پڑے گا شاید کوئی شدت سے مجھے ڈھونڈ رہا ہے مجھ میں اشک ٹپکے تو کوئی راز کی تحریر ملی اور کیا کیا نہیں معلوم لکھا ہے مجھ میں گونجتا رہتا ہوں میں کوئی سنے یا نہ سنے بھولی بسری ہوئی یادوں ...

    مزید پڑھیے

    تاریخ کے صفحات میں کوئی نہیں ہم سر مرا

    تاریخ کے صفحات میں کوئی نہیں ہم سر مرا محو سفر ہے آج تک پھینکا ہوا پتھر مرا ہر سمت صحن ذات میں پھیلے ہوئے سائے مرے بیٹھا ہے تخت فکر پر سمٹا ہوا دل بر مرا کیا خوش نصیبی ہے مری میں ایک تنہا فوج ہوں جھوٹ اور سچ کی جنگ میں کام آ گیا لشکر مرا ماحول سب کا ایک ہے آنکھیں وہی نظریں وہی سب ...

    مزید پڑھیے

    شروع سلسلۂ دید کرنے والا تھا

    شروع سلسلۂ دید کرنے والا تھا تعارف رخ توحید کرنے والا تھا خود اس کی زود لسانی نے اس کو گنگ کیا وہ میرے حال پہ تنقید کرنے والا تھا مزاج یار نے بخشی تھی ایسی یک رنگی کہاں میں غیر کی تقلید کرنے والا تھا تو منتہا کو پہنچ کر بھی صفر ہے اب تک تجھے میں واقف تمہید کرنے والا تھا ہماری ...

    مزید پڑھیے

    کہاں وہ رک کے کوئی بات کر کے جاتا ہے

    کہاں وہ رک کے کوئی بات کر کے جاتا ہے ہمیشہ نصف ملاقات کر کے جاتا ہے جواب دینے کی مہلت نہ مل سکی ہم کو وہ پل میں لاکھ سوالات کر کے جاتا ہے گرا کے قعر مذلت میں لاکھ خوش ہو مگر بلند وہ مرے درجات کر کے جاتا ہے سنے بغیر ہی احوال واقعی ہم سے ہمیں سپرد حوالات کر کے جاتا ہے

    مزید پڑھیے

    ایک سجدہ خوش گلو کے آگے سہواً ہو گیا

    ایک سجدہ خوش گلو کے آگے سہواً ہو گیا اس پہ کوئی معترض ہوگا تو قصداً ہو گیا کفر کا فتویٰ ہوا صادر تو خوش قسمت تھا میں تذکرہ میرا بھی ہر مسجد میں ضمناً ہو گیا آناً‌ فاناً میں کسی نے دستگیری کی مری کام تھا مشکل کا اہلاً اور سہلاً ہو گیا طوعاً و کرہاً بڑھاتے ہیں ملاقاتوں کو ...

    مزید پڑھیے

    از سر نو فکر کا آغاز کرنا چاہیئے

    از سر نو فکر کا آغاز کرنا چاہیئے بے پر و بال سہی پرواز کرنا چاہیئے سطح پر رہتے ہیں ان کو ڈوبنا آتا نہیں کیوں نہ ان تنکوں کو سرافراز کرنا چاہیئے قرب میں دوری بہت ہے بعد میں قربت بہت ہر طوالت کو عطا ایجاز کرنا چاہیئے دل بنا طاؤس اندیشے بنے زاغ و زغن ذہن کو ہم پایۂ شہباز کرنا ...

    مزید پڑھیے

    کہیں چراغ جلا روشنی کہیں پہنچی

    کہیں چراغ جلا روشنی کہیں پہنچی کھلی تھی آنکھ کہیں زندگی کہیں پہنچی جو روبرو ہے اسی کی تلاش جاری ہے نظر اٹھی کہیں بد قسمتی کہیں پہنچی ہزار فاصلے طے کر کے بھی وہیں ہم ہیں کہیں سے ہو کے تمہاری گلی کہیں پہنچی لہو اچھال کے بنجر زمیں کو سینچا تھا غضب تو یہ ہے کہ ساری نمی کہیں ...

    مزید پڑھیے

    سو رہا ہوں میں کہ یہ جاگا ہوا سا خواب ہے

    سو رہا ہوں میں کہ یہ جاگا ہوا سا خواب ہے لا شعوری وسعتوں میں اونگھتا سا خواب ہے مختصر ہیں زندگی کے دن مگر راتیں طویل بے وفا آنکھوں کو حاصل باوفا سا خواب ہے ایک منظر کو مکمل دیکھتا ہے کون اب کوئی سنتا ہے کہاں کیا گونجتا سا خواب ہے ناگ ہے سایہ فگن سر پر ہوں میں محو خرام مجھ اپاہج ...

    مزید پڑھیے

    اور ہوتی میری رسوائی نکھرتا اور کچھ

    اور ہوتی میری رسوائی نکھرتا اور کچھ غور کرتا اور کچھ اظہار کرتا اور کچھ یار لوگوں میں سبق بنتی مری آوارگی سانحہ اس شہر میں مجھ پر گزرتا اور کچھ ان دنوں دیدہ بھی لگتا ہے شنیدہ کی طرح کاش حرف و صوت کے من میں اترتا اور کچھ آخری ہچکی سے دم ٹوٹا نہ نبض اپنی رکی تو اگر ہوتا مرے آگے تو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2