Kamran Nadeem

کامران ندیم

کامران ندیم کی غزل

    نظر تک آیا ہے پہچان تک نہیں آیا

    نظر تک آیا ہے پہچان تک نہیں آیا یہ واہمہ ابھی امکان تک نہیں آیا جراحت غم دوراں کی ابتدا کہیے دل جہاں زدہ پیکان تک نہیں آیا وہ اور بات کہ جاں کی امان مانگی تھی میں اس کی بیعت و پیمان تک نہیں آیا بس اس کے لمس کا الہام ہی اترتا ہے وہ میرے مصحف وجدان تک نہیں آیا یہ زندگی تو نفی میں ...

    مزید پڑھیے

    اور منظر ہیں بہت چشم خریدار میں اب

    اور منظر ہیں بہت چشم خریدار میں اب خواب بکتے ہی نہیں شہر کے بازار میں اب شام گل ہوتی چلی جاتی ہے رفتہ رفتہ شمع گل جلتی نہیں گلشن دیدار میں اب واعظ شہر نہیں شہر ستم گر بھی تمام نقد جاں مانگتے ہیں جرأت انکار میں اب حبس جاں ہے کہ امڈتا ہی چلا آتا ہے بارش مے بھی چلی جاتی ہے بے کار ...

    مزید پڑھیے

    اک تسلسل سے رائگانی ہے

    اک تسلسل سے رائگانی ہے زندگی بھی عجب کہانی ہے سر میں سودا نیا سمایا ہے دل میں وحشت وہی پرانی ہے تجھ گلی میں غبار بن کے میاں ہجر کی خاک ہم نے چھانی ہے مجھ کو تحلیل کر دیا پل میں کیا عجب مرگ ناگہانی ہے دل میں ماتم کناں ہے حلقۂ غم تیرے جانے کی سوز خوانی ہے دشت امکاں تو ایک پل ہے ...

    مزید پڑھیے

    رات کو پہلو میں اک تصویر روشن ہو گئی

    رات کو پہلو میں اک تصویر روشن ہو گئی خواب تو دیکھا نہیں تعبیر روشن ہو گئی اس بت کافر کو جو دیکھا بہت نزدیک سے نقش گر کی شوخیٔ تحریر روشن ہو گئی دشت وحشت میں غبار ناقہ لیلیٰ تو ہے حسرت اے پائے جنوں زنجیر روشن ہو گئی زخم نومیدی چراغاں کر رہے ہیں زیست میں داغ کیا روشن ہوئے تقدیر ...

    مزید پڑھیے

    کسی وحشت میں پھر آباد ہونا چاہتا ہوں

    کسی وحشت میں پھر آباد ہونا چاہتا ہوں میں اس کی قید سے آزاد ہونا چاہتا ہوں پرانی شکل صورت گر ملامت بن گئی ہے نئی مٹی سے پھر ایجاد ہونا چاہتا ہوں کسی کے ہجر میں حیرت کدے آباد دیکھوں کسی کے وصل میں برباد ہونا چاہتا ہوں اسے بھی اپنی بانہوں میں تڑپتا دیکھنا ہے میں اس کا صید تھا صیاد ...

    مزید پڑھیے

    وہ جو اک فرط شادمانی ہے

    وہ جو اک فرط شادمانی ہے ہجر سے وصل کی کہانی ہے وصل اس کا کراں سے تا بہ کراں بے کرانی سی بے کرانی ہے کوئی آتش کدہ ہے اس کا بدن آگ ہے اور جاودانی ہے اس کی آنکھیں کہ خواب حیرت ہیں کیفیت ان میں داستانی ہے ہونٹ اس کے ہیں چشمۂ حیواں ان سے پی لو تو جاودانی ہے اس کی قامت ہے رشک سرد ...

    مزید پڑھیے

    نظر آتا ہے اٹھتا جان سے دل سے دھواں مجھ کو

    نظر آتا ہے اٹھتا جان سے دل سے دھواں مجھ کو دیار عشق میں رہنا ہے اک بار گراں مجھ کو ستم پیشہ مرے افسانۂ غم کو نہیں سنتا سو کہنا ہے بہ انداز حدیث دیگراں مجھ کو سواد شام ہے جلتے ہوئے خیموں کا منظر ہے یہیں آواز دیتی ہے کوئی نوک سناں مجھ کو مری موج رواں کی سب روانی ختم کر دے گا بنا دے ...

    مزید پڑھیے

    سپردگی کا ولولہ جمال میں نہیں ملا

    سپردگی کا ولولہ جمال میں نہیں ملا مجھے فسون بے خودی وصال میں نہیں ملا جو آئنے سے کرچیوں کے درمیاں کا تھا سفر شکست ذات کی کسی مثال میں نہیں ملا الم نصیب شام میں ہے مہر جاں بجھا بجھا نشاط رنج بھی مجھے مآل میں نہیں ملا ہزار یاسمین مشک بو ہوں تیرے قرب میں چمن کا عکس تیرے خد و خال ...

    مزید پڑھیے

    خرابہ اور ہوتا ہے خراب آہستہ آہستہ

    خرابہ اور ہوتا ہے خراب آہستہ آہستہ دیار دل پہ آتے ہیں عذاب آہستہ آہستہ سوال وحشت جاں کے جواب آہستہ آہستہ بت کافر اٹھاتے ہیں نقاب آہستہ آہستہ کوئی دست حنائی مو قلم سے بھرتا جاتا ہے نگار شام میں رنگ شراب آہستہ آہستہ بگولہ ابتدائے شوق میں محمل دکھائی دے نظر آتے ہیں صحرا میں ...

    مزید پڑھیے

    پھر چھلکتا ہے جام وحشت کا

    پھر چھلکتا ہے جام وحشت کا شاہ خوباں سلام وحشت کا ایک چشم غزال کرتی ہے چار سو اہتمام وحشت کا وہ گراں گوش ہو ہمہ تن گوش تو سناؤں کلام وحشت کا چاک ہے اب ترا گریباں بھی دیکھ لے انتقام وحشت کا موج حیرت سفر میں رکھتی ہے ڈھونڈھتا ہوں قیام وحشت کا آج تو باغباں نے گلشن میں اک بچھایا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2