Kamran Nadeem

کامران ندیم

کامران ندیم کے تمام مواد

12 غزل (Ghazal)

    نظر تک آیا ہے پہچان تک نہیں آیا

    نظر تک آیا ہے پہچان تک نہیں آیا یہ واہمہ ابھی امکان تک نہیں آیا جراحت غم دوراں کی ابتدا کہیے دل جہاں زدہ پیکان تک نہیں آیا وہ اور بات کہ جاں کی امان مانگی تھی میں اس کی بیعت و پیمان تک نہیں آیا بس اس کے لمس کا الہام ہی اترتا ہے وہ میرے مصحف وجدان تک نہیں آیا یہ زندگی تو نفی میں ...

    مزید پڑھیے

    اور منظر ہیں بہت چشم خریدار میں اب

    اور منظر ہیں بہت چشم خریدار میں اب خواب بکتے ہی نہیں شہر کے بازار میں اب شام گل ہوتی چلی جاتی ہے رفتہ رفتہ شمع گل جلتی نہیں گلشن دیدار میں اب واعظ شہر نہیں شہر ستم گر بھی تمام نقد جاں مانگتے ہیں جرأت انکار میں اب حبس جاں ہے کہ امڈتا ہی چلا آتا ہے بارش مے بھی چلی جاتی ہے بے کار ...

    مزید پڑھیے

    اک تسلسل سے رائگانی ہے

    اک تسلسل سے رائگانی ہے زندگی بھی عجب کہانی ہے سر میں سودا نیا سمایا ہے دل میں وحشت وہی پرانی ہے تجھ گلی میں غبار بن کے میاں ہجر کی خاک ہم نے چھانی ہے مجھ کو تحلیل کر دیا پل میں کیا عجب مرگ ناگہانی ہے دل میں ماتم کناں ہے حلقۂ غم تیرے جانے کی سوز خوانی ہے دشت امکاں تو ایک پل ہے ...

    مزید پڑھیے

    رات کو پہلو میں اک تصویر روشن ہو گئی

    رات کو پہلو میں اک تصویر روشن ہو گئی خواب تو دیکھا نہیں تعبیر روشن ہو گئی اس بت کافر کو جو دیکھا بہت نزدیک سے نقش گر کی شوخیٔ تحریر روشن ہو گئی دشت وحشت میں غبار ناقہ لیلیٰ تو ہے حسرت اے پائے جنوں زنجیر روشن ہو گئی زخم نومیدی چراغاں کر رہے ہیں زیست میں داغ کیا روشن ہوئے تقدیر ...

    مزید پڑھیے

    کسی وحشت میں پھر آباد ہونا چاہتا ہوں

    کسی وحشت میں پھر آباد ہونا چاہتا ہوں میں اس کی قید سے آزاد ہونا چاہتا ہوں پرانی شکل صورت گر ملامت بن گئی ہے نئی مٹی سے پھر ایجاد ہونا چاہتا ہوں کسی کے ہجر میں حیرت کدے آباد دیکھوں کسی کے وصل میں برباد ہونا چاہتا ہوں اسے بھی اپنی بانہوں میں تڑپتا دیکھنا ہے میں اس کا صید تھا صیاد ...

    مزید پڑھیے

تمام