کیلاش ماہر کی نظم

    آنکھیں انگلیاں اور دل

    راکھ ہی راکھ ہے اس ڈھیر میں کیا رکھا ہے کھوکھلی آنکھیں جہاں بہتا رہا آب حیات کب سے اک غار کی مانند پڑی ہیں ویراں قبر میں سانپ کا بل جھانک رہا ہو جیسے راکھ ہی راکھ ہے انگلیاں صدیوں کو لمحوں میں بدلنے والی انگلیاں شعر تھیں نغمہ تھیں ترنم تھیں کبھی انگلیاں جن میں ترے لمس کا جادو تھا ...

    مزید پڑھیے

    لمس اول

    یہ بھی کیا کم ہے کہ تو نے مجھے پہچان لیا وہ بھی کیا رات تھی جب تجھ سے ملاقات ہوئی سہمی سہمی سی نگاہوں میں ذرا بات ہوئی جب تری زلف پر افشاں سے ہوا آتی تھی دل کے تاریک بیابان مہک جاتے تھے تو نے گھبرا کے چھپائی تھیں جو اپنی آنکھیں جیسے دو ساغر رنگین کہیں چھلکے تھے جب مرا ہاتھ ترے ہاتھ ...

    مزید پڑھیے