آنکھیں انگلیاں اور دل
راکھ ہی راکھ ہے اس ڈھیر میں کیا رکھا ہے کھوکھلی آنکھیں جہاں بہتا رہا آب حیات کب سے اک غار کی مانند پڑی ہیں ویراں قبر میں سانپ کا بل جھانک رہا ہو جیسے راکھ ہی راکھ ہے انگلیاں صدیوں کو لمحوں میں بدلنے والی انگلیاں شعر تھیں نغمہ تھیں ترنم تھیں کبھی انگلیاں جن میں ترے لمس کا جادو تھا ...