لمس اول

یہ بھی کیا کم ہے کہ تو نے مجھے پہچان لیا
وہ بھی کیا رات تھی جب تجھ سے ملاقات ہوئی
سہمی سہمی سی نگاہوں میں ذرا بات ہوئی
جب تری زلف پر افشاں سے ہوا آتی تھی
دل کے تاریک بیابان مہک جاتے تھے
تو نے گھبرا کے چھپائی تھیں جو اپنی آنکھیں
جیسے دو ساغر رنگین کہیں چھلکے تھے
جب مرا ہاتھ ترے ہاتھ سے چھو جاتا تھا
تار جیسے کہیں بجلی کے سنک جاتے تھے
یہ بھی کیا کم ہے کہ تو نے مجھے پہچان لیا