کیلاش ماہر کی غزل

    در و دیوار سے سایہ بھی نہ ابھرا کوئی

    در و دیوار سے سایہ بھی نہ ابھرا کوئی اب ترے شہر میں ہوگا بھی نہ ہم سا کوئی ہر دریچے میں کھڑا ہے کوئی گوتم بن کر گھر کی تنہائی کا اب نام نہ لے گا کوئی وہی ٹوٹا ہوا لمحہ تھا مقدر اپنا جیسے جگ بیت گئے خواب نہ دیکھا کوئی ایک دیوار تھی خوشبو کی جو حائل ہی رہی جسم در جسم مرے سامنے آیا ...

    مزید پڑھیے

    کسی برگد کا سر راہ نہ احسان لیا

    کسی برگد کا سر راہ نہ احسان لیا اپنا سایہ تھا کڑی دھوپ میں خود تان لیا بھیس بدلے تو بہت ہم نے ہوا کے ڈر سے سنگ و دیوار نے ہر شہر میں پہچان لیا لوگ خوابوں کے دریچوں میں چھپے بیٹھے ہیں حاکم شہر نے ہر شخص کا ایمان لیا نقد جاں کفر کی بستی میں چھپایا تو بہت سنگ ساروں نے مگر دور سے ...

    مزید پڑھیے

    سائے ہیں گوش بر آواز ذرا آہستہ

    سائے ہیں گوش بر آواز ذرا آہستہ مونسو آج کی شب ذکر وفا آہستہ چاند کے پاؤں رکے تھم گئے اڑتے بادل ذکر کس عارض و گیسو کا چلا آہستہ کتنے دن آئے کفن اوڑھے ہوئے خوابوں کا شب نے کھولی تری یادوں کی قبا آہستہ کیا خبر اگلے برس اجنبی ہو جائیں ہم ٹوٹتے جاتے ہیں پیمان وفا آہستہ آج پھر زخم ...

    مزید پڑھیے

    جانے کیا سوچ کے ہم تجھ سے وفا کرتے ہیں

    جانے کیا سوچ کے ہم تجھ سے وفا کرتے ہیں قرض ہے پچھلے جنم کا سو ادا کرتے ہیں کیا ہوا جام اٹھاتے ہی بھر آئیں آنکھیں ایسے طوفان تو ہر شام اٹھا کرتے ہیں دل کے زخموں پہ نہ جاؤ کہ بڑی مدت سے یہ دیے یوں ہی سر شام جلا کرتے ہیں کون ہے جس کا مقدر نہ بنی تنہائی کیا ہوا ہم بھی اگر تجھ سے گلا ...

    مزید پڑھیے

    کیسا جشن بہار ہے اپنا

    کیسا جشن بہار ہے اپنا گل پہ سایہ بھی بار ہے اپنا سسکیاں لے رہی ہے شام فراق پھر مجھے انتظار ہے اپنا عشق کا راگ کس نے چھیڑ دیا ہر نفس شعلہ بار ہے اپنا کیا گلہ تیری کم نگاہی سے کب ہمیں اعتبار ہے اپنا نیچی نظروں سے پوچھ مت احوال ضبط غم ہی شعار ہے اپنا کیا ہوا زندگی نہ راس آئی موت ...

    مزید پڑھیے