در و دیوار سے سایہ بھی نہ ابھرا کوئی

در و دیوار سے سایہ بھی نہ ابھرا کوئی
اب ترے شہر میں ہوگا بھی نہ ہم سا کوئی


ہر دریچے میں کھڑا ہے کوئی گوتم بن کر
گھر کی تنہائی کا اب نام نہ لے گا کوئی


وہی ٹوٹا ہوا لمحہ تھا مقدر اپنا
جیسے جگ بیت گئے خواب نہ دیکھا کوئی


ایک دیوار تھی خوشبو کی جو حائل ہی رہی
جسم در جسم مرے سامنے آیا کوئی